Shirt Ke Piche Jandar Ki Tasweer Ho Tu Usay Pehen Kar Ya Ulta Karke Namaz Padhna

شرٹ کے پیچھے جاندار کی تصویر بنی ہو تو اسے پہن کر، یا اسے الٹا کر کے نماز پڑھنا

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1182

تاریخ اجراء: 23جمادی الاول1445 ھ/08دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر شرٹ پر جاندار کی تصویر بنی ہو تو کیا نماز ہوجائےگی جبکہ تصویر پیٹھ پر ہے؟ نیز ایسے کپڑے کو الٹا کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس لباس پرجاندار کی ایسی تصویر ہو جس میں اُس کا چہرہ موجود ہو اور وہ  تصویر اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے ہو کر دیکھیں تو چہرہ واضح ہو تو ایسا لباس پہننا شرعاً جائز نہیں،اور ایسے لباس میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی  ہے جس کو دوبارہ پڑھنا  واجب ہے۔البتہ اگر وہ تصویر مٹادی جائے یا اُس کا چہرہ مکمل کاٹ دیا جائے یا اُس پر سیاہی وغیرہ کوئی رنگ لگادیا جائے جس سے اس کا چہرہ مٹ جائے،یا  اُس تصویر والے لباس پر کوئی دوسرا کپڑا پہن یا اوڑھ لیا جائےجس سے وہ تصویر چھپ جائےتو اب نماز مکروہ تحریمی نہ ہوگی۔

   اگر کپڑا الٹا کرکے نماز پڑھی جس سے تصویر چھپ گئی  تو اب نماز  مکروہ تحریمی نہیں ہو گی البتہ مکروہ تنزیہی قرار پائے گی نیز الٹا کپڑا پہن کر نماز ادا کرنا بارگاہ الٰہی کے آداب کے خلاف ہے ، ایسی نماز کو دوبارہ پڑھنا مستحب ہوگا۔

   اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کا چہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے سے دیکھیں تو اعضاء کی تفصیل ظاہر ہو ، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پر ہو اس کا پہننا ، پہنانا یا بیچنا ، خیرات کرنا سب ناجائز ہے اور اسے پہن کر نماز مکروہِ تحریمی ہے جس کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔ ایسے کپڑے پر سے تصویر مٹادی جائے یا اس کا سر یا چہرہ بالکل محو کردیا جائے ، اس کے بعد اس کا پہننا ، پہنانا ، بیچنا ، خیرات کرنا ، اس سے نماز ، سب جائز ہوجائے گا۔ اگر وہ ایسے پکے رنگ کی ہو کہ مٹ نہ سکے دھل نہ سکے تو ایسے ہی پکے رنگ کی سیاہی اس کے سر یا چہرے پر اس طرح لگادی جائے کہ تصویر کا اتنا عضو محو ہوجائے صرف یہ نہ ہو کہ اتنے عضو کا رنگ سیاہ معلوم ہو کہ یہ محو ومنافیِ صورت نہ ہوگا۔“(فتاویٰ رضویہ ،جلد 24،صفحہ 567، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   فتاوی رضویہ میں ہے :”کپڑا الٹا پہننا اوڑھنا خلافِ معتاد میں داخل ہے اور خلافِ معتاد جس طرح کپڑا پہن یا اوڑھ کر بازار میں یا اکابر کے پاس نہ جاسکے ضرور مکروہ ہے کہ دربارِ عزت احق بادب و تعظیم ہے۔  واصلہ کراھۃ الصلٰوۃ فی ثیاب مھنۃ قال فی الدر وکرہ صلٰوتہ فی ثیاب مھنۃ۱قال الشامی وفسرھا فی شرح الوقایۃ بما یلبسہ فی بیتہ ولایذھب بہ الی الاکابر ۔ اصل یہ ہے کہ کام ومشقت کے لباس میں نمازمکروہ ہے درمیں ہے نمازی کاکام کے کپڑوں میں نمازادا کرنامکروہ ہے، شامی نے فرمایا اور اس کی تفسیرشرح وقایہ میں ہے وہ کپڑے جو آدمی گھرپہنتاہے مگران کے ساتھ اکابرکے پاس نہیں جاتا ۔(ت)

   اورظاہر کراہتِ تنزیہی، فان کراھۃ التحریم لابدلھا من نھی غیرمصروف عن الظاھر کماقال ش فی ثیاب المھنۃ والظاھر ان الکراھۃ تنزیھیۃ  ۔ اس وجہ سے کہ  کراہتِ تحریمی کے لئے ایسی نہی کاہونا ضروری ہے جوظاہر سے مؤول نہ ہو، جیسا کہ علامہ شامی نے کام کے کپڑوں کے بارے میں کہا کہ ظاہرکراہت تنزیہی ہے ۔ (ت)“ (فتاوی رضویہ ،جلد7،صفحہ358۔359، رضافاؤنڈیشن، لاھور )

   کراہت تنزیہی کے سبب نماز کااعادہ مستحب ہونے کے متعلق فتاویٰ شامی میں ہے:” ذكر في الإمداد بحثا أن كون الإعادة بترك الواجب واجبة لا يمنع أن تكون الإعادة مندوبة بترك سنة اهـ ونحوه في القهستاني، بل قال في فتح القدير: والحق التفصيل بين كون تلك الكراهة كراهة تحريم فتجب الإعادة أو تنزيه فتستحب اهـ۔ “یعنی"امداد"میں اس پر بحث موجود ہے کہ نماز کے کسی واجب کو ترک کرنے پراس نماز کا اعادہ واجب ہونا اس بات سے مانع نہیں کہ نماز میں کسی سنت کے ترک پر اس نماز کا اعادہ مستحب ہو الخ، اور اسی کی مثل "قہستانی"میں مذکور ہے، بلکہ صاحب"فتح القدیر" نے فرمایا کہ حق یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے کہ وہ کراہت اگر تحریمی ہو تو اس نماز کا اعادہ واجب ہے اور اگر تنزیہی ہو تو اس نماز کا اعادہ مستحب ہے۔“ (ردالمحتار علی الدر المختار، جلد02،  صفحہ 183، مطبوعہ :کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم