Shehar Ki Jis Taraf Se Ja Raha Hai Us Simt Ki Abadi Se Nikal Jana Zaroori Hai?

شہر کی جس طرف سے جارہا ہے، اس سمت کی آبادی سے نکل جانا ضروری ہے؟

مجیب:مفتی فضیل رضاعطاری

فتوی  نمبر:98

تاریخ  اجراء:02شعبان المعظم1433ھ/23 جون 2012ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شرعی سفر کی حد جو بیان کی گئی ہے 92 کلومیٹر کی ، وہ کہاں سے شمار ہوگی ، اس کے گھر سے،یا شہر کی حدود سے نکل کر ؟بعض حضرات کہتے ہیں کہ گھر سے سفر کی ابتدا ہوجاتی ہے اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں ؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   سفرشرعی کے اعتبار سے شرعاً مسافر بننے کے لئے نیت سفر کے ساتھ شہر یا گاؤں کی جس سمت سے باہر جارہا ہے ، اس طرف کی آبادی سے باہر ہوجانا بھی ضروری ہے۔ متون و شروح و فتاویٰ میں مذکور جزئیات’’خروج من البلد، خروج من المصر(شہر سے نکلنا)،خروج من عمران المصر(شہر کی آبادی سے نکلنا)اور مفارقۃ بیوت المصر (شہر کے گھروں سے جدا ہونا)‘‘ وغیرہ ،ہم معنی الفاظ میں اسی ضرور ی شرط کا بیان ہوتا ہے ،لہذااسی وقت سے اس کے سفر کی ابتدا مانی جائے گی ۔

   علامہ عبد اللہ بن محمود الموصلی حنفی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ متن ’’المختار‘‘میں ارشاد فرماتے ہیں:’’یصیر مسافرا اذا فارق بیوت المصر ‘‘مسافر تب ہوگا جب شہر کے گھروں سے جدا ہوجائے۔(المختار علی ھامش الاختیار ،جلد 1 ،صفحہ265 ،مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیۃ)

    الاختیار لتعلیل المختار میں ارشاد فرمایا :’’لا یصیر مسافرا الا اذا خرج من المصر، و قد قالت الصحابۃ لو فارقنا ھذا الخص لقصرنا‘‘ یعنی مسافر اسی وقت ہوگا، جب وہ شہر سے باہر نکل جائے ، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فرمایا کہ اگر ہم اس خص(گھر سے) تجاوزکر جائیں گے ،تو قصر کریں گے۔(الاختیار لتعلیل المختار، جلد 1، صفحہ265، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیۃ)

   امام ابو بکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف بدائع الصنائع فصل فیما یصیر بہ المقیم مسافرا میں مسافر ہونے کے لئے تین باتوں کا ہونا ضروری ارشاد فرمایا ان میں سے تیسری بات یہ ارشاد فرمائی :” الخروج من عمران المصر، فلا یصیر مسافرا بمجرد نیۃ السفر ما لم یخرج من عمران المصر(الی ان قال) ولان النیۃ انما تعتبر إذا کانت مقارنۃ للفعل  لان مجرد العزم عفو “یعنی آدمی کا شہر کی آبادی سے نکل جانا، لہذا آدمی محض سفر کی نیت سے مسافر نہیں ہوجاتا جب تک شہر کی آبادی سے نہ نکل جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیت اس صورت میں معتبر ہوتی ہے جب وہ فعل کے ساتھ مقارن ہو اس لئے کہ محض ارادہ عفو ہے ۔( بدائع الصنائع،جلد 1، صفحہ 476 تا 477،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے :’’لا یصیر الشخص مسافرا بمجرد نیۃ السفر بل یشترط معہ الخروج، قال محمد : یقصر حین یخرج من مصرہ ، ویخلف دور المصر، وفی الغیاثیۃ والمعتبر من الخروج ان یجاوز المصر وعمراناتہ، وھو المختار،وعلیہ الفتویٰ‘‘ یعنی آدمی محض نیت سفر سے مسافر نہیں ہوجاتا، بلکہ اس کے ساتھ خروج بھی شرط ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ شخص اس وقت قصر کرے گا ،جب وہ شہر سے نکل جائے گا اور شہر کے گھروں کو اپنے پیچھے چھوڑ دے ، اور غیاثیہ میں ہے کہ وہ شہر اور اس کی آبادی سے تجاوز کرجائے۔ یہی مختار ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔)فتاوی تاتار خانیہ ،جلد1 ،صفحہ 502،مطبوعہ دار الکتب  العلمیہ بیروت (

   محیط برہانی میں ہے:”قال محمد رحمہ اللہ: ولایقصر حتی یخرج من مصرہ و یخلف دور المصر، وفی موضع آخر یقول: ویقصر إذا جاوز عمرانات المصر قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ ایام ولیالیھا، وھذا لانہ ما دام فی عمرانات المصر فھو لا یعد مسافراً، والاصل فی ذلک ما روی عن علی رضی اللہ عنہ أنہ خرج من البصرۃ یرید السفر فجاء فی وقت العصر فأتمھا ثم نظر الی خص امامہ، فقال:انا لو کنا جاوزنا ھذا الخص لقصرنا“یعنی امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اور وہ  قصر  نہیں کرے گا یہاں تک کہ وہ اپنے  شہر سے نکل جائے  اور شہر کے گھروں کو اپنے پیچھے چھوڑ جائے ، اور ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا : اور قصر اس وقت کرے گا جب وہ شہر کی آبادی کو تجاوز کرجائے درآنحالیکہ وہ تین دن رات کی راہ کے ارادے سے نکلا ہو ، اور یہ اس لئے کہ جب تک وہ شہر کی آبادی میں ہے وہ مسافر نہیں کہلائے گا ، اور اصل اس میں وہ روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بصرہ سے سفر کے ارادے سے نکلےتو عصر کا وقت ہوگیا ،تو آپ نے مکمل نماز پڑھی اور اپنے سامنے موجود ایک گھر کی طرف نظر کی اور فرمایا: اگر ہم اس سے تجاوز کرجائیں تو قصر کریں گے ،جلد2، ص۔)المحیط البرہانی فحہ 387،مطبوعہ ادارۃ التراث الاسلامی لبنان(

   گھر سے نکلنے پر سفر شرعی کی ابتدا مانی جائے تو لازم آئے گا کہ جو شرعا ًمسافر نہیں ہے اس کا سفر شرعی شروع ہوگیایعنی ہر شرعی مسافر ابتداءً عرفی مسافر ہے اور دونوں اعتبار سے ملاکر مدت سفر کا اعتبار کیا جاتا ہے، یہ بات واضح طور پر غلط ہے، فقہائے کرام کے جزئیات میں صراحۃ یادلالۃ اس پر کوئی دلیل نہیں ،یہ غلط فہمی سفر عرفی اور سفر شرعی میں فرق معلوم نہ ہونے یا جسے معلوم ہو توبوجہ نسیان اس کی رعایت نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔

   مزید واضح جزئیہ کہ جس سے اس وہم کی جڑکٹ جاتی ہے بطور تعلیل صاحب ہدایہ کا یہ فرمانا ہے کہ جس طرح اقامت کے لئے آبادی میں دخول کا اعتبار ہے اسی طرح شرعا مسافر ہونے کے لئے آبادی سے خروج ضروری ہے مسافر جب آبادی میں داخل ہوجائے اگرچہ گھر نہ پہنچے، تو مقیم ہوجاتا ہے یونہی اگرچہ گھر سے نکل جائے مگر آبادی سے باہر نہ ہو تو مسافر نہیں ہوتا۔   

   ہدایہ میں ہے :’’وإذا فارق المسافر بیوت المصر صلی رکعتین لان الاقامۃ تتعلق بدخولھا فیتعلق السفر بالخروج عنھا وفیہ الأثر عن علی رضی اللہ عنہ لو جاوزنا ھذا الخص لقصرنا‘‘ یعنی مسافر جب شہر کے گھروں سے تجاوز کرگیا، تو دو رکعتیں پڑھے گا اس لئے کہ اقامت شہر میں دخول سے متعلق ہوتی ہے تو سفر بھی اس سے خروج سے ہی متعلق ہوگا ۔ اور اس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اثر مروی ہے آپ نے فرمایا :جب ہم اس خص سے تجاوز کرجائیں گے تو قصر کریں گے ۔(ھدایہ مع بنایہ، جلد 1، صفحہ253تا 255، مطبوعہ ملتان(

   توفقہائے کرام کا خروج بلد سے پہلے اسے مسافر نہ ماننا جب شرعی سفر کے اعتبار سے ہے، تو سفرشرعی جو فعل ہے اس کا تحقق بغیر صاحب فعل کے ماننا کیونکر ممکن ہے؟ فقہائے کرام جو خیار امت ہیں ان کی بات سے ایسا نتیجہ نکالنا اور ان کی طرف منسوب کرنا حقیقتاًان کی طرف کم عقلی کو منسوب کرنا ہے، وہ اس عیب سے پاک ہیں، ضرور یہ کم علمی و قلت فہم کی بناء پر پیدا ہونے والے وہم ہی کا نتیجہ ہے۔ اس ساری تفصیل سے بخوبی واضح ہوگیا کہ بعض حضرات کا یہ کہنا کہ گھر سے سفر کی ابتدا شروع ہوجاتی ہے ،محض غلط ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم