Shari Musafir Safar Mein Kisi Jagah Jamaat Mein Shamil Ho Jaye To Namaz Ka Hukum

شرعی مسافر سفرکے دوران کسی جگہ جماعت قائم دیکھ کر شامل ہوگیا تو نمازکی مختلف صورتوں کے احکام ،نیز  اقتداکی شرط ”امام کا مقیم یا مسافر ہونا معلوم ہو“ کا مطلب

مجیب:محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Book-145

تاریخ اجراء:14جمادی الثانی1439ھ/03مارچ2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگرکوئی شخص مسافر ہے اور  سفر میں ایسی جگہ رکا کہ اس مقام پر جماعت کھڑی ہے،اورامام کی حالت کا پتہ نہیں کہ امام مقیم ہے یا مسافر تو کیا اس کی اقتدا کرے یا اپنی الگ پڑھے ؟جبکہ اقتدا کی شرائط میں یہ بھی لکھا ہے کہ سفر یا اقامت کے حوالے سے امام کی حالت کا علم ہو۔اور اگر چار رکعت والی نماز میں اقتدا کر لیتا ہےاور اسے دو سے زیادہ رکعتیں نہ ملیں، تو پھر یہ کتنی رکعتیں پڑھے گا؟یعنی امام کو مقیم سمجھ کر چار پوری کرے گا یا مسافر سمجھ کر دو پر یہ سلام پھیر دے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    شرعی مسافر نے سفرکے دوران اگر کسی جگہ جماعت قائم دیکھی اورامام میں کوئی شرعی خرابی یا بد مذہب ہونے  کا قرینہ ظاہر نہیں ہے، تو اس امام کی اقتداکرنا،جائز ہے ، اگرچہ شروع کرتے وقت اس کے مسافر یا مقیم ہونے کے بارے میں علم نہ ہو۔

    پھر اگر چار رکعت والی نماز میں اس کوایک یا دو رکعتیں ملیں اور امام نے سلام پھیر دیا تو اس صورت میں اگر امام سلام کے بعد اعلان کردے کہ میں مسافر ہوں ،تو یہ مسافر مقتدی بھی سلام پھیر دے  اور اگر امام  کوئی اعلان نہ کرے اور امام کی حالت ظاہر نہ ہو سکے، تو اب یہ سوال قائم ہو گا کہ مسافر دو  پڑھے یا چار ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جگہ جہاں یہ جماعت قائم ہے اگر شہر یا گاؤں ہے یعنی رہائشی علاقہ ہے تو ظاہریہی ہے کہ امام مقیم ہو گا ، اس لیے اسے مقیم سمجھتے ہوئے مسافر مقتدی اپنی نماز چار رکعت مکمل کرے گا۔اور اگر یہ جگہ رہائشی آبادی سے باہر رستےوغیرہ میں ہے،تو اب ظاہر یہ ہے کہ امام بھی مسافر ہوگا ،لہٰذا اب یہ مسافر مقتدی بھی دورکعت پر سلام پھیرے گا۔

   پھر فارغ ہونے کےبعد امام کےمقیم یا مسافر ہونے کےبارے میں معلومات کرے ، اگر غلطی ظاہر ہو،تو اس کے مطابق نماز کی تصحیح کر لے یعنی اگر ثابت ہوا کہ امام مقیم تھا اور اس نے چار کے بجائے دو پڑھی ہیں، تو فرض ادا نہ ہوا ، لہٰذا نماز دوبارہ پڑھے،  کیونکہ مقیم کی اقتداکرنے کی وجہ سے مسافر پر بھی چار رکعت فرض تھے ،لیکن اس نے دو پڑھے ہیں ۔ (البتہ جب دوبارہ تنہا نماز پڑھے گا، تو مسافر والی یعنی قصر نماز ہی پڑھے گا۔)اور اگر ثابت ہوا کہ امام مسافر تھا اور اس نےدو کی جگہ چار پڑھ لی ہیں، تو فرض ادا ہوگیا (جبکہ قعدہ اُولیٰ کیاہو)البتہ سلام میں تاخیر یعنی ترک واجب کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہوئی ۔

   اور بالفرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد اگر امام کے مسافر یا مقیم ہونے کے حوالے سے کسی طرح معلومات نہ کر سکا،مثلاً:اس کے فارغ ہونے سے پہلے ہی امام چلا گیا یا کوئی اور صورت اس طرح کی بن گئی، تو اب یہی نماز ،جو اس نے ظاہر پر بنیاد رکھ کر مکمل کی درست تسلیم کی جائے گی ، ہاں فقط ایک صورت میں اس کی نماز فاسد ہونے کا حکم ہوگا اور وہ یہ ہے کہ رہائشی آبادی میں اس نے امام کی اقتدا کی اور اسے مسافر سمجھ کر دو رکعت پر سلام پھیر دیا اور بعد میں امام کی حالت ظاہر نہ ہو سکی، تو اب اس کی نماز فاسد شمار ہوگی ،کیونکہ رہائشی آبادی میں امام کا ظاہر مقیم ہونا تھا ۔ اب اگر معلوم ہے کہ امام نے دو ہی پڑھی ہیں، تو یہ گمان کیا جائے گا کہ امام نے چار کے بجائے بھول کر دو  پڑھی ہیں، جس کی وجہ سے امام کی نماز نہ ہوئی اور امام کی نہ ہوئی، تو مقتدی کی بھی نہ ہوئی۔ اور اگر یہ بھی معلوم نہ ہو کہ امام نے دو پڑھی ہیں یا چار  تب بھی دورکعت پڑھنے والے مقتدی کی نماز فاسد ہی ہوگی ،کیونکہ امام نے اگرچہ حقیقت میں چار پڑھی ہوں ،لیکن اس نے تو دو ہی پڑھی ہیں ،  لہٰذا اس کی نماز بہر صورت فاسد ہے ۔اور یہ نماز کا فساد اس وجہ سے نہیں ہے کہ امام کی حالت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اس کی اقتدا درست نہ ہوئی تھی ، بلکہ چار کی جگہ دو رکعت پڑھنے کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اگر بالفرض بعد میں کسی طرح معلوم ہوگیا کہ امام واقعۃً مسافر ہی تھا، تو اب اس کی وہی نماز درست تسلیم کر لی جائے گی ۔

   اس ساری تفصیل سے معلوم ہوگیا  کہ اقتدا کی شرائط میں جو یہ لکھا ہے کہ ” امام کا مقیم یا مسافر ہونا معلوم ہو“تو یہ حقیقت میں اقتداصحیح ہونے کی شرط نہیں ہے ،بلکہ یہ صحتِ اقتدا کا حکم لگانے کے لیے شرط ہے۔جیسا کہ صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہار شریعت میں جب اقتدا کی شرائط میں اس شرط کو بیان کیا، تو اس کے تحت مِنْہِیَّہ میں لکھا:”يہ حقيقتاً صحت اقتدا کی شرط نہيں بلکہ حکم صحت اقتدا کے ليے شرط ہے ،ولہٰذا بعد نماز اگر حال معلوم ہوجائے نماز صحيح ہوگئی۔“( بہار شریعت، جلد1، صفحہ563، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

مزید جزئیات درج ذیل ہیں :

   ہدایہ اور اس کی شرح فتح القدیر میں ہے :”( ويستحب له إذا سلم أن يقول: أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر) لاحتمال أن يكون خلفه من لا يعرف ولا يتيسر له الاجتماع بالإمام قبل ذهابه فيحكم حينئذ بفساد صلاة نفسه بناء على ظن إقامة الإمام ثم إفساده بسلامه على ركعتين، وهذا محمل ما في الفتاوى إذا اقتدى بإمام لا يدري أمسافر هو أو مقيم لا يصح، لأن العلم بحال الإمام شرط الأداء بجماعة انتهى لا أنه شرط في الابتداء لما في المبسوط: رجل صلى بالقوم الظهر ركعتين في قرية وهم لا يدرون أمسافر هو أم مقيم فصلاتهم فاسدة سواء كانوا مقيمين أم مسافرين، لأن الظاهر من حال من في موضع الإقامة أنه مقيم، والبناء على الظاهر واجب حتى يتبين خلافه، فإن سألوه فأخبرهم أنه مسافر جازت صلاتهم انتهى. وإنما كان قول الإمام ذلك مستحبا، لأنه لم يتعين معرفة صحة صلاته لهم فإنه ينبغي أن يتموا ثم يسألوه فتحصل المعرفةالعبارۃ بین الھلالین من الھدایۃ ترجمہ: (مسافر)امام کے لیے مستحب ہے کہ وہ سلام پھیرنے کے بعد یوں کہے :”ہم مسافر لوگ ہیں،آپ اپنی نمازیں پوری کرلیں“ کیونکہ ممکن ہے کہ امام کے پیچھے کوئی ایسا شخص ہو جسے امام کی حالت کا علم نہ ہو اور بعد میں امام کے جانے سے پہلے پہلے اسے امام سے ملاقات کرنے کا موقع میسر نہ آئے، تو اس وقت اس کی اپنی نماز کے فساد کا حکم لگایا جائے گا،اس بنیاد پر کہ امام کو مقیم گمان کیا جائے گا اور یہ تسلیم کیا جائے گا کہ امام کی نماز (بھول) کر دو رکعت پر سلام پھیرنے کی وجہ سے فاسد ہے۔ یہی محمل ہے اس مسئلے کا جو فتاویٰ میں مذکور ہے کہ :”اگر کسی نے امام کی اقتدا کی اور اسے معلوم نہیں کہ امام مقیم ہے یا مسافر ،تو اس کی نماز صحیح نہیں ،کیونکہ امام کی حالت کا علم ہونا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی شرط ہے۔“ انتہی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امام کی حالت کا علم ہونا ابتدا میں ہی شرط ہے، کیونکہ مبسوط میں ہے : ”کسی نے بستی میں لوگوں کو ظہر کی نماز دو رکعت پڑھائی اور لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ مسافر ہے یا مقیم، تو سب کی نماز فاسد ہے برابر ہے وہ مقیم ہوں یا مسافر، کیونکہ جو رہائشی بستی میں ہے اس کا ظاہر یہی ہے کہ وہ مقیم ہوگا اور ظاہر پر بنیاد رکھنا واجب ہے، جب تک اس کا خلاف واضح نہ ہو ، لہٰذا اگر لوگوں نے بعد میں امام سے پوچھا اور اس نے بتا دیا کہ وہ مسافر ہے، تو سب کی نماز ہو جائے گی ۔“انتہی۔ اورامام کا یہ اعلان کرنا مستحب ہے ،کیونکہ نماز صحیح ہونے کی پہچان کوئی اسی پر موقوف نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ نماز مکمل کر کے امام سے خود پوچھ لیں، تو ان کو پتا لگ جائے گا۔( فتح القدیر، باب صلاۃ المسافر، جلد2، صفحہ 38۔39، مطبوعہ کوئٹہ)

   صاحب بحر مبسوط کا مذکورہ بالا مسئلہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :”وفي القنية، وإن كان خارج المصر لا تفسد ويجوز الأخذ بالظاهر في مثله“ترجمہ : اور قنیہ میں ہے : ”اور اگر شہر سے باہر (امام نے لوگوں کو ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں اور لوگوں کو امام کی حالت کا علم نہیں) تو نماز فاسد نہیں ہوگی،کیونکہ اس طرح کے معاملےمیں ظاہر کو اختیار کر کے عمل کرنا ،جائز ہے ۔“( البحر الرائق، جلد2، صفحہ238، مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ مبسوط و قنیہ کا مذکورہ بالا مسئلہ بحر کے حوالے سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :” والحاصل أنه يشترط العلم بحال الإمام إذا صلى بهم ركعتين في موضع إقامة وإلا فلا“ترجمہ: خلاصہ یہ کہ امام کی حالت کا علم ہونا یہ اس وقت شرط ہے، جب امام نے لوگوں کو رہائشی علاقے میں دو رکعتیں پڑھائی ہوں ورنہ نہیں ۔( رد المحتار،باب صلاۃ المسافر،  جلد2، صفحہ736، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں : ”والحاصل: أنه غير شرط، بل المعنى أنه إذا اقتدى به في موضع إقامة فالظاهر أنه مقيم، والظاهر واجب العمل ما لم يتبين خلافه، فإذا سلم على ركعتين وأخبر الإمام بنفسه أو بسؤال المقتدي أنه مسافر لم يعرض ما يظن به المقتدي فساد صلاة نفسه، وإذا ذهب ولم يخبر كان على المقتدي ولو مسافرا أن يحسبه مقيما سها وسلم على ركعتين، لأن ذلك الظاهر من أجل كونه في محل الإقامة لم يتبين)"خلافه"، زدت  هذا اللفظ نظرا الى السباق ،و لعله سقط من  قلم الناسخ (، فيحكم بفساد صلاة نفسه لعروض المفسد لا لانتفاء الشرط من قبل، وإلا لفسدت وإن علم بعد أنه مسافر وكيف يصح لشرط أن يتأخر عن المشروط؟ “ ترجمہ: خلاصہ یہ کہ امام کی حالت کا علم ہونا یہ شرط نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے رہائشی علاقے میں امام کی اقتداکی، تو ظاہر یہ ہے کہ وہ مقیم ہوگا اور ظاہر پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے، جب تک اس کا خلاف واضح نہ ہو جائے، تو جب اس نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا اور پھر امام نے خود یا اس کے پوچھنے پر بتادیا کہ وہ مسافر ہے، تو مقتدی کو کوئی ایسی چیزلا حق نہ ہوگی جس سے اس کی اپنی نماز کا فساد مظنون ہو اور اگر امام بغیر بتائے چلا گیا، تو مقتدی اگرچہ مسافرہو اس پر لازم تھا کہ وہ یہ سمجھتا کہ امام مقیم تھا اور اس نے بھول کر دو رکعت پر سلام پھیرديا ہے، کیونکہ رہائشی علاقے میں ہونے کی وجہ سے یہی ظاہر ہے (جس کا خلاف) واضح نہیں ہوا۔لہذا اس کی نماز کے فساد کا حکم دیا جائے گا ، مفسدِ نماز لاحق ہونے کی وجہ سے ، اس وجہ سے نہیں کہ پہلے سے کوئی شرط مفقود تھی وگرنہ توفاسد ہی رہتی اگرچہ بعد میں امام کے مسافر ہونے کا علم ہو جاتا اور یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ شرط مشروط سے مؤخر ہو؟(جد الممتار، جلد3، صفحہ 569، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

   مزید لکھتے ہیں : ”يشترط للحكم بصحتها كما هو صريح مفاد المبسوط، لا لنفس الصلاة كما يزعم، قال في المبسوط كما في الفتح: (فإن سألوه فأخبرهم أنه مسافر جازت صلاتهم) ۔ فلو كان شرطا للصلاة في موضع الإقامة كيف صحت صلاتهم مع فقد الشرط وإن أخبرهم بعد أنه مسافر كمن صلى متيمما، وله ماء يكفي لطهره، فلما سلم انكسرت الآنية وذهب الماء فقد وجد شرط صحة التيمم وهو العجز عن الماء، ولكن لتأخره لا يتوهم أحد أنه يغني عن تيممه السابق شيئا “ ترجمہ: امام کی حالت کا علم ہونا یہ اس کی صحت کا حکم لگانے کے لیے شرط ہے ،جیسا کہ مبسوط کا صریح مفاد ہے نہ کہ نفسِ نماز کے لیے ،جیسا کہ گمان کیا جاتا ہے ۔ مبسوط میں فرمایا ،جیسا کہ فتح القدیر میں ہے :”پھر اگر انہوں نے امام سے پوچھا اور امام نے انہیں بتا دیا کہ وہ مسافر ہے، تو ان سب کی نماز جائز ہو جائے گی “پس اگر یہ علم رہائشی علاقے میں نماز کی شرط ہوتا، تو شرط کے بغیر ان کی نماز صحیح کیسے ہو جاتی ؟اگرچہ ان کو بعد میں پتا بھی لگ جائے کہ وہ مسافر ہے، جیسا کہ وہ شخص جس نے تیمم کے ساتھ نماز پڑھ لی ،جبکہ طہارت کے لیے بقدرِ کفایت اس کے پاس پانی تھا ،پھر جب اس نے سلام پھیرا ،تو برتن ٹوٹ کر پانی ضائع ہو گیا، تو اب تیمم صحیح ہونے کی شرط یعنی پانی  سے عجز اگرچہ پائی گئی، لیکن نماز کے بعد یہ شرط پائی گئی اس لئے کوئی یہ وہم بھی نہیں کر سکتا کہ یہ اس کے پہلے والے تیمم  کو کچھ بھی کفایت کرے گی۔(جد الممتار، جلد3، صفحہ 571، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

   جس پر دو رکعت پڑھنا فرض تھا، وہ اگر چار پڑھ لے،تو اس کے متعلق نور الایضا ح اور اس کی شرح مراقی الفلاح میں ہے:”فإذا أتم الرباعية و الحال أنه  قعد القعود الأول  قدر التشهد  صحت صلاته  لوجود الفرض في محله وهو الجلوس على الركعتين وتصير الأخريان نافلة له مع الكراهة  لتأخير الواجب وهو السلام عن محله إن كان عامدا فإن كان ساهيا يسجد للسهو  وإلا  أي وإن لم يكن قد جلس قدر التشهد على رأس الركعتين الأوليين  فلا تصح  صلاته لتركه فرض الجلوس في محله واختلاط النفل بالفرض قبل كماله“ ترجمہ: مسافر نے اگر چار رکعتیں پوری کر لیں یوں کہ قعدہ اُولیٰ میں تشہد کی مقدار بیٹھا بھی تھا ،تو اس کی نماز صحیح ہوگئی ،کیونکہ فرض یعنی دو رکعت کے آخر میں بیٹھنا اپنے محل میں پایا گیا اور بعد والی دو رکعتیں اس کے لئے نفل ہو جائیں گی ،لیکن نماز مکروہ ہوگی، واجب یعنی سلام کو اس کے محل سے مؤخر کرنے کی وجہ سے ،جبکہ ایسا جان بوجھ کر کیا ہو اور اگر بھول کر ایسا کیا سجدۂ سہو  کرے گا۔ اور اگر مسافر پہلی دو رکعتیں پڑھنے کے بعد بقدرِ تشہد  بیٹھا نہیں تھا ،تو نماز صحیح نہ ہوگی، کیونکہ اس نے بیٹھنے والے فرض کو اس کے محل پر ادا نہیں کیا اور فرض پورے ہونے سے قبل اس میں نفل ملا دیئے۔( مراقی الفلاح، صلوۃ المسافر، صفحہ378،مطبوعہ دارالخیر الاسلامیہ)

   فتاویٰ رضویہ میں ہے ”جس پر شرعاً قصر ہے اور اس نے جہلاً پڑھی اُس پر مواخذہ ہے اور اس نماز کا پھیرنا واجب۔“( فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ 270،  مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم