Shari Mazoor Imamat Karwa Sakta Hai Ya Nahi?

شرعی معذور امامت کروا سکتا ہے ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-529

تاریخ اجراء:24صفر المظفر6144ھ/30 اگست 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی کو ریح خارج ہونے کا عذر ہو، تو کیا اس کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   امامت کے لیے جہاں دیگر   شرائط  ہیں،وہیں ایک شرط’’ امام کا معذور ِشرعی  نہ ہونا‘‘ بھی ہے،یعنی تندرست لوگوں کی امامت کے لیے شرط یہ ہے کہ ان  کا امام شرعاً معذور نہ ہو۔معذورِ شرعی سے مراد وہ شخص  ہوتا ہےجوکسی بھی وضوتوڑنے والی چیز  جیسے  پیشاب کے قطروں یامسلسل دَسْت یا ریح خارج ہونے کی بیماری  میں اس طرح مبتلا ہو کہ  نماز کا پورا  وقت  اول تا   آخر گزرجائے،مگر   اسے اتنا وقت بھی نہ ملے کہ وہ وضو کرکے فرض ادا کرسکے، ایساشخص شریعت کی اصطلاح میں معذور شرعی  کہلاتا ہے، لہٰذا  اگر کسی شخص کو ریح خارج ہونے کا عذر ہو، تو اگراس عذر کی وجہ سے وہ معذور شرعی کی حد تک نہ پہنچا ہو، تو بلا شبہ  وہ  امامت کرواسکتا ہے اور اس کے پیچھے  نماز  پڑھی جاسکتی ہے، ہاں البتہ اگر ریح خارج ہونے والے عذر  کی وجہ سے وہ معذورِ شرعی بن چکا ہو، تو اب وہ  تندرست یعنی  غیر معذورِ شرعی  لوگوں کی امامت  نہیں کرواسکتا، اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جاسکتی، ہا ں چونکہ  معذور شرعی اپنے ہی جیسے معذور شرعی کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے، لہٰذا  اگر مقتدی ایسا  ہو کہ وہ   بھی ریح خارج ہونے  کی بیماری  میں معذور شرعی ہوچکا ہو، تو  وہ  ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے، اس کی نماز درست   ہوجائے گی۔

   امامت کی شرائط کے متعلق نور الایضاح میں ہے:’’شروط صحۃ الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ أشیاء، الاسلام والبلوغ والعقل و الذکورۃوالقراءۃ والسلامۃمن الاعذار‘‘ترجمہ:مرد غیر معذور کے امام کے لیے چھ شرطیں ہیں:مسلمان ہونا،بالغ اور عاقل ہونا،مرد ہونا،قراءت(درست ہونا)،معذورِ(شرعی ) نہ ہونا۔(نور الایضاح ،باب الامامۃ، صفحہ 155،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   فتاوی رضویہ میں  ہے:’’پنجگانہ میں ہر شخص صحیح الایمان،صحیح القراءۃ،صحیح الطہارۃ،مرد،عاقل،بالغ،غیر معذور(شرعی)  امامت کرسکتا ہے یعنی اس کے پیچھے نماز ہوجائے گی۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد6، صفحہ515، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   صحیح شخص کا  معذور شرعی کےپیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ،چنانچہ  ہدایہ اور اس کی شرح بنایہ میں ہے:’’(ولا يصلي الطاهر خلف من هو في معنى المستحاضة)أراد به من به سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذي لا يرقأ، ومن به استطلاق بطن وانفلات الريح، يعني لا يجوز اقتداء الطاهر بواحد من هؤلاء (لأن الصحيح أقوى حالا من المعذور، والشيء لا يتضمن ما هو فوقه، والإمام ضامن بمعنى؛ أنه تضمن صلاته صلاة المقتدي‘‘ ترجمہ:اور پاک شخص  اس شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھے گا جو مستحاضہ کے معنی میں ہے،اس سے وہ لوگ مراد لیے ہیں   جن کو پیشاب کے  قطرے مسلسل  نکلتے ہوں، اور ہمیشہ  نکسیر بہنے کا مسئلہ ہو،اور ایسا زخم ہو  جس سے  خون بند نہ ہوتا ہو، اور وہ جس کو دست ہوں اور ریح خارج ہوتی ہو، یعنی   پاک شخص کا اِن  میں سے کسی شخص  کی بھی اقتدا کرنا، جائز نہیں ہے ،کیونکہ صحیح شخص کی حالت  معذور سے  قوی  ہوگی، اور چیز اپنے سے بلند مرتبہ کو ضمن میں نہیں لیتی،اور امام ضامن ہوتا ہے اس معنی پر کہ امام کی نماز، مقتدی کی نماز کو ضمن میں لیے ہوتی ہے۔(البنایۃ شرح الھدایہ،جلد2،صلاۃ الصحیح خلف صاحب العذر،صفحہ356،دار الكتب العلميہ ، بيروت)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے فتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ وہ کون کون شخص ہیں مسلمانوں میں، جن کے پیچھے نماز درست نہیں؟

   آپرحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں ارشاد  فرمایا:’’جو قرآن مجید غلط پڑھتا ہو جس سے فسادِ معنیٰ ہو، جس کی طہارت صحیح نہ ہو اگرچہ معذوری کی وجہ سے، مثلاً:جسے معاذاﷲ سلس البول یا ہروقت ریح خارج ہونے کا عارضہ ہے یازخم یا پھوڑے سے خون یا زردآب بہتا ہے(تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں )،ان کے سوا اور بکثرت صورتیں ہیں کہ کتبِ مذہب میں اس کی تفصیل ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ495،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   معذور شرعی  اپنے ہی  جیسےمعذور شرعی کی اقتدا کرسکتا ہے،چنانچہ بحر الرائق میں ہے:’’وقيد بالطاهر؛ لأن اقتداء المعذور صحيح إن اتحد عذرهما، وأما إن اختلف فلا يجوز‘‘ترجمہ:پاک شخص کے ساتھ مسئلہ کو مقید کیا گیا ہے،کیونکہ معذور کا(معذور کی )اقتدا کرنا صحیح ہے جبکہ ان دونوں کا عذر ایک ہی ہو،اور اگر (دونوں معذور شرعی تو ہوں،لیکن دونوں کے )عذر مختلف ہو ں تو اقتدا جائز نہیں۔(البحر الرائق،جلد1،صفحہ382،دارالکتاب الاسلامی،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:’’معذوراپنے مثل یا اپنے سے زائد عذر والے کی اِمامت کر سکتا ہے، کم عذر والے کی اِمامت نہیں کر سکتا اور اگر امام و مقتدی دونوں کو دو قسم کے عذر ہوں، مثلا ایک کو ریاح کا مرض ہے، دوسرے کو قطرہ آنے کا، تو ایک دوسرے کی اِمامت نہیں کرسکتا۔‘‘(بھار شریعت،جلد1،حصہ3،صفحہ562،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   عذر کی وجہ سے کوئی شخص معذور شرعی کب بنتا ہے،اس کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:”شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لا يثبت ما لم يستوعب الوقت كله“ ترجمہ: پہلی مرتبہ عذر ثابت ہونے کے لیے شرط ہے کہ وہ عذر  پورے  ایک نماز کے وقت کو گھیرلے اور یہی زیادہ ظاہر ہے،جیسا کہ عذر کا  ختم ہونا بھی اسی وقت ثابت ہوتا ہے کہ جب  وہ نماز کے ایک پورے وقت کو گھیرلے(یعنی  پورے وقت میں وہ عذر نہ پایا جائے)۔(الفتاوی الھندیہ،جلد،1کتاب الطھارۃ، صفحہ40،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   بہارشریعت میں ہے:” ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے،اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وقت میں وُضو کرلے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وُضو سے پڑھے، اس بیماری سے اس کا وُضو نہیں جاتا، جیسے قطرے کا مرض، یا دست آنا، یا ہوا خارِج ہونا، یا دُکھتی آنکھ سے پانی گرنا، یا پھوڑے، یا ناصور سے ہر وقت رطوبت بہنا، یا کان، ناف، پِستان سے پانی نکلنا کہ یہ سب بیماریاں وُضو توڑنے والی ہیں، ان میں جب پورا ایک وقت ایسا گزر گیا کہ ہر چند کوشش کی مگر طہارت کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکاتو عذر ثابت ہوگیا۔(بھارشریعت جلد1،حصہ2،صفحہ385،مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم