Sharai Musafir Ne Namaz Mein Qasr Na Ki To Namaz Ka Hukum

شرعی مسافر نے نماز میں قصر نہیں کی ، تو نماز کی مختلف صورتوں کے احکام

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:132

تاریخ اجراء:21ذوالحجۃ الحرام1437ھ/24ستمبر2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شرعی مسافر نے جان بوجھ کر یا بھولے سے نماز میں قصر نہ کی اور مکمل چار رکعتیں پڑھ دی، تو کیا نماز ہو جائے گی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسافر پر واجب ہے کہ وہ چار رکعتی نماز کو دو رکعت ادا کرے ، اگر پہلا قعدہ کر کے بھولے سے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا اور تیسری کے سجدہ کرنے سے پہلے یاد آ  گیا، تو لوٹ آئے اور سجدۂ سہو  کر کے نماز مکمل کرے ۔

   اور اگر جان بوجھ کر تیسری کے لیے کھڑا ہوا، تو اس پر بھی لازم ہے کہ واپس آئے اور نماز مکمل کرے اور سلام پھیرنے کے بعد اس کا اعادہ کرے ۔

   پھر اگر جان بوجھ کر تیسری کا سجدہ کر لیا، تو اب ایک اور رکعت ملا کر نماز مکمل کرے اور سلام کے بعد اس کا اعادہ اور توبہ کرنا واجب ہے ۔

   اور بھولے سے تیسری کا سجدہ کر نے کے بعد یاد آیا، تو ایک رکعت اور ملا کر چار رکعتیں مکمل کرے اور آخر میں سجدۂ سہو  کرے ، اگر سجدۂ سہو  نہ کیا، تو  نماز کا اعادہ واجب ہے ۔

   اور اگر دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا تھا، تو دونوں صورتوں میں فرض باطل ہو گئے ، اس پر فرض ہے کہ اس نماز کو دوبارہ پڑھے ۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ مسافر پرواجب ہے کہ وہ چار رکعت والی نماز کو دو رکعت ہی ادا کرے ، اگر پہلا قعدہ جو کہ حقیقتاً اِ س کی نماز کا آخری قعدہ ہے ، کر کے بھول کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا اور تیسری کا سجدہ کرنے سے پہلے یاد آ گیا، تو اس پر واجب ہے کہ لوٹے اور سجدۂ سہو  کر کے نماز مکمل کرے، کیونکہ اس نے سلام پھیرنے میں تاخیر کی ہے اور سلام پھیرنے میں تاخیر کرنے سے سجدۂ سہو  واجب ہو جاتا ہے ۔

   اور اگر جان بوجھ کر تیسری کے لیے کھڑا ہو گیا ،تو بھی اس پر واجب یہی ہے کہ لَوٹے اور بعدِ سلام اس نماز کا اعادہ کرے، کیونکہ اس نے جان بوجھ کر واجب کو ترک کرتے ہوئے سلام کو مؤخر کیا ہے اور جان بوجھ کر واجب چھوڑا جائے ،تو  نماز مکروہِ تحریمی  واجب الاعادہ ہوتی ہے اور سجدۂ سہو  سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی ۔

   اور اگربھولے سے تیسری کا سجدہ کر لیا ،تو اب ایک رکعت اور ملا لے تا کہ اس کی یہ دو رکعتیں نفل ہو جائیں اور سجدۂ سہو  کر کے نماز پوری کر لے۔اور قصدا ً ایسا کیا تو وہ بھی ایک رکعت ملا کر چار رکعت ادا کرے اور سلام کے بعد نماز کا اعادہ کرے ۔اس کی وجہ وہی ہے کہ بھولنے کی صورت میں واجب کو مؤخر کیا اور سجدۂ سہو  سے اس کی تلافی ممکن ہے اور قصداً واجب ترک کرنے کی  صورت میں سجدۂ سہو  سے تلافی نہیں ہو سکتی اور اگر پہلا قعدہ نہیں کیا تھا ،توجان بوجھ کر خواہ بھولے سے  تیسری کا سجدہ کرتے ہی فرض قعدہ چھوڑنے کی وجہ سے فرض باطل ہوگئے اور یہ نماز نفل میں بدل گئی ، اب یہ حکم ہے کہ ایک اور رکعت ملاکر چاروں  رکعتوں کو بطور نفل مکمل کرے اور بعد میں فرض دوبارہ پڑھے ۔

   صحیح مسلم شریف میں ہے:”عن يعلى بن أمية قال: قلت لعمر بن الخطاب ﴿ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ﳓ اِنْ خِفْتُمْ اَنۡ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فقد أمن الناس، فقال: عجبتُ مما عجبتَ منه فسألت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن ذلك فقال: صدقة تصدق اللہ بها عليكم فاقبلوا صدقته“ ترجمہ : یعلی بن امیہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم پر کچھ گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو، جبکہ تمہیں کافروں سے فتنے کا خوف ہو ، اب تو امن قائم ہو چکا ، فرمایا مجھے بھی اسی سے تعجب ہوا تھا جس سے تمہیں تعجب ہوا ،تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا ”یہ اللہ تعالی نے تم پر صدقہ کیا ہے،تو تم اس کے صدقے کو قبول کرو۔“(صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ المسافرین  ، صفحہ 250،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   مختصر القدوری میں ہے: ”وفرض المسافر عندنا في كل صلاة رباعية ركعتان لا تجوز له الزيادة عليهما فإن صلى أربعا وقد قعد في الثانية مقدار التشهد أجزأته ركعتان عن فرضه وكانت الأخريان له نافلة وإن لم يقعد مقدار التشهد في الركعتين الأوليين بطلت صلاته“ ترجمہ : ہمارے نزدیک مسافر کے لیے ہر چار رکعت والی نماز میں فرض ہی دو رکعتیں ہیں اور ان پر زیادتی کرنا ،جائز نہیں ، اور اگر چار رکعتیں پڑھیں اور دوسری پر بقدرِ تشہد  بیٹھا تھا، تو دو رکعتیں فرض ہوئی اور باقی دو نفل ہو جائیں گی اور اگر پہلی دو رکعتوں کے بعد بقدرِ تشہد  نہیں بیٹھا تھا، تو اس کی نماز باطل ہو گئی ۔(مختصر القدوری مع الجوھرۃ ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ المسافر ، صفحہ 216، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   تنویر الابصار و درمختار میں ہے :”(فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدة(الأولى تم فرضه و) لكنه( أساء)لو عامدا لتأخير السلام وترك واجب القصر وواجب تكبيرة افتتاح النفل وخلط النفل بالفرض، وهذا لا يحل كما حرره القهستاني بعد أن فسر أساء بأثم واستحق النار(وما زاد نفل) كمصلي الفجر أربعا (وإن لم يقعد بطل فرضه) وصار الكل نفلا لترك القعدة“ترجمہ : اگر مسافر نے نماز مکمل پڑھ لی اور قعدہ اُولیٰ کیا تھا، تو اس کے فرض مکمل ہو گئے، لیکن عمداً ہونے کی صورت میں وہ گنہگار ہوا ، جس کی وجہ یہ ہے کہ سلام کو مؤخر کرنا ، قصر کرنے والے واجب کو ترک کرنا ، نفل نماز کی واجب تکبیرِ اولی چھوڑنا اور نفل کو فرض کے ساتھ ملانا حلال نہیں ۔جیسا کہ قہستانی نے”اساء“ تحریر کرنے کے بعد گنہگار اور مستحقِ عذاب ہونے کے ساتھ اس کی تفسیر کو بیان کیا ہے ۔ اور جو دو رکعتیں زائد ہیں وہ نفل ہیں جیسے فجر پڑھنے والا چار پڑھے (تو دو نفل ہو جاتے ہیں ) اور اگر قعدہ اُولیٰ نہیں کیا، تو قعدہ چھوڑنے کی وجہ سے اس کے فرض باطل ہو گئے اور پوری رکعتیں نفل ہو گئیں ۔

   اس کے تحت ردالمحتار میں ہے :”قوله لتأخير السلام،مقتضى ما قدمه في سجود السهو أن يقول لتركه السلام فإنه ذكر أنه إذا صلى الخامسة بعد القعود الأخير يضم إليها سادسة ويسجد للسهو لتركه السلام، وإن تذكر وعاد قبل أن يقيد الخامسة بسجدة يسجد للسهو لتأخيره السلام أي سلام الفرض ومسألتنا نظير الأولى لا الثانية أفاده الرحمتي ،قلت: لكن ما هنا أظهر۔۔۔ثم إن ترك واجب القصر مستلزم لترك السلام وتكبيرة النفل وخلط النفل بالفرض وظاهر كلامه أنه يأثم بتركه زيادة على إثمه بهذه اللوازم “ترجمہ : ان کا قول سلام کو مؤخر کرنے کی وجہ سے ، سجدۂ سہو  میں جو گزرا ،اس کا مقتضی یہ ہے کہ سلام ترک کرنے کی وجہ سے کہتے، کیونکہ وہاں یہ ذکر کیا ہے کہ جب قعدہ اخیرہ کے بعد پانچویں پڑھ لی ،تو چھَٹی رکعت بھی ملائے اور سلام چھوڑنے کی وجہ سے سجدۂ سہو  کرے اور اگر پانچویں کا سجدہ کرنے سے پہلے یاد آگیا ،تو واپس آئے اور فرض سلام میں تاخیر کی وجہ سے سجدۂ سہو  کرے ۔ اور ہمارا مسئلہ پہلے مسئلے کی نظیر ہے نہ کہ دوسرے مسئلے کی ، علامہ رحمتی نے یہ افادہ فرمایا ہے ۔ میں کہتا ہوں جو یہاں بیان کیا ہے وہ زیادہ ظاہر ہے،پھر قصر نہ کرنے کے واجب کو ترک کرنا سلام اور نفل کی تکبیر ِ اُولیٰ ترک کرنے اور نفل کو فرض کے ساتھ ملانے کو مستلزم ہے اور ان کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ وہ اس گناہ کے ساتھ ساتھ مذکورہ لوازم کی وجہ سے زیادہ گنہگار ہو گا ۔(ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ المسافر ، جلد2، صفحہ 733-734، مطبوعہ کوئٹہ)

   طحطاوی علی الدر میں سجدۂ سہو  کے بیان میں اسی مسئلے کے تحت ہے:”واستفید من التعلیل ان العود واجب “ترجمہ : تعلیل سے  مستفاد ہے کہ اس پر لوٹنا واجب ہے ۔(طحطاوی علی الدر ، کتاب الصلاۃ ، باب سجود السہو ، جلد1، صفحہ 512، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

   بحر الرائق میں ہے:”كل صلاة أديت مع ترك واجب وجبت إعادتها“ ترجمہ : ہر وہ نماز جو واجب ترک کرنے کے ساتھ ادا کی گئی ہو اس کا اعادہ واجب ہے ۔(بحر الرائق ، کتاب الطہارۃ ، باب المسح علی الخفین، جلد1، صفحہ 324، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی میں اسے یوں بھی بیان کیا گیا ہے: ”و بترك الواجب تثبت كراهة التحريم ، و قد قالوا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم يجب إعادتها“ترجمہ : واجب ترک کرنے سے کراہتِ تحریمی ثابت ہوتی ہے اور فقہاء نے فرمایا ہے کہ ہر وہ نماز جو کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کیجائے ، اس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔(بحر الرائق ، کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الصلاۃ ، جلد1، صفحہ 546،  مطبوعہ کوئٹہ)

   نور الایضاح میں ہے :”یجب سجدتان بتشھد و تسلیم لترک واجب سھوا وان تکرر ، وان ترکہ عمدا اثم ووجب اعادۃ الصلاۃ لجبر نقصھا ولا یسجد فی العمد للسھو “ترجمہ :بھولے سے واجب ترک ہونے پر اگرچہ بھولنا بار بار ہو ، تشہد اور سلام کے ساتھ دو سجدے کرنا واجب ہے اور اگر عمداً واجب کو ترک کیا، تو گنہگار ہوا اور نماز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کا اعادہ واجب ہے اور عمد اً واجب چھوڑا تو سجدۂ سہو  نہیں کر سکتا ۔(نور الایضاح مع المراقی، کتاب الصلاۃ ، باب سجود السہو ، صفحہ 408، مطوعہ دار الخیر الاسلامیہ)

   امداد الفتاح میں ہے :”فاذا اتم الرباعیۃ والحال انہ قعد القعود الاول قدر التشھد صحت صلاتہ لوجود الفرض فی محلہ وھو الجلوس علی الرکعتین وتصیر الاخریان نافلۃ لہ مع الکراھۃ لتاخیر الواجب وھو السلام عن محلہ ان کان متعمدا ، وان کان ساھیا یسجد للسھو “ترجمہ : جب مسافر نے چار رکعتی نماز کو مکمل ادا کیا اور پہلا قعدہ بقدرِ تشہد  کر چکا ہے، تو اس کی نماز صحیح ہو گئی، کیونکہ دو رکعتوں کے بعد بیٹھنا فرض تھا جو کہ پایا گیا اور آخری دو رکعتیں کراہت کے ساتھ نفل ہو گئیں ،جس کی وجہ یہ ہے کہ واجب یعنی سلام کو اس کے محل سے مؤخر کیا ہے ، یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ قصداً چار پڑھی ہوں اور اگر بھولے سے ہو تو سجدۂ سہو  کرے ۔(امداد الفتاح ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ المسافر ، صفحہ 441، مطبوعہ مکتبہ امین)

   سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا ”اگر کوئی شخص جس پر نماز قصر ہو وہ سفر میں اگر دیدہ و دانستہ بہ نیت زیادہ ثواب پوری نماز پڑھے گا، تو گنہگار ہو گا یا نہیں ؟“

   تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا :”بیشک گنہگار و مستحق عذاب ہوگا ، نبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”صدقۃ تصدق ﷲ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ“ یہ قصر صدقہ ہے، اللہ تعالی نے تم پر صدقہ کیا ہے، تم اس کے صدقے کو قبول کرو۔ “(فتاوی رضویہ ، جلد8، صفحہ 268، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

   سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں :”جس پر شرعاً قصر ہے اور اس نے جہلاً پڑھی اُس پر مواخذہ ہے اور اس نماز کا پھیرنا واجب۔)فتاوی رضویہ ، جلد8، صفحہ 270، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاہور(

   بہار شریعت میں ہے: ”مسافر پر واجب ہے کہ نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑھے اس کے حق میں دو ہی رکعتیں پوری نماز ہے اور قصداً چار پڑھیں اور دو پر قعدہ کیا، تو فرض ادا ہوگئے اور پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئيں مگر گنہگار و مستحق نار ہوا کہ واجب ترک کیا، لہٰذا تو بہ کرے اور دو رکعت پر قعدہ نہ کیا، تو فرض ادا نہ ہوئے اور وہ نماز نفل ہوگئی ۔“)بہار شریعت ، جلد1، صفحہ 743، مطبوعہ  مکتبۃ المدینہ ، کراچی(

   ایک اور مقا م پر ہے ” قصداً واجب ترک کیا تو سجدۂ سہو سے وہ نقصان دفع نہ ہو گا ،بلکہ اعادہ واجب ہے۔ يوہيں اگر سہواً واجب ترک ہوا اور سجدۂ سہو نہ کیا جب بھی اعادہ واجب ہے۔“(بہار شریعت ، جلد1، صفحہ 708، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم