Sharai Musafir Ne Do Ki Bajaye 4 Rakatain Parh Le To Ab Namaz Ka Kya Hukum

شرعی مسافر نے دو کی بجائے ، چار رکعتیں پڑھ لیں ، تو اب نماز کا کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7580

تاریخ اجراء:03رَبیعُ الآخر1443ھ/09 نومبر 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ شرعی مسافر نے قصداً یا سہواً  دو کی جگہ چار رکعات فرض پڑھ لیں ،تو کیا حکم ہے؟ جبکہ  دوسری رکعت پر قعدہ  بھی کیا ہو۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی مسافر پر  واجب ہے کہ نماز میں قصر کرے ،یعنی چار رکعت والے فرض  ، مثلاً ظہر ، عصر اور عشاء کو دو پڑھےکہ اس کے حق میں دو  رکعتیں ہی پوری نماز ہے ،لہٰذا اگر جان بوجھ کردو کی بجائے چار رکعتیں اداکیں اور دو سری رکعت پر قعدہ کیا تھا ،تو فرض اد اہوگئے اور آخری دو رکعتیں نفل ہو گئیں ،مگر ترکِ واجب کےسبب کراہتِ تحریمی کا مرتکب اورگنہگار ہوا،لہٰذااس پر توبہ کرنا اور دوبارہ  دورکعت نماز ادا کرنا واجب ہے، البتہ اگر سہوا ً یعنی بھولے سے چار  رکعتیں پڑھی ہو ں ،تو سجدہ سہو واجب ہے اورسجدہ سہو واجب ہونے کے باوجود نہ کیا،  تو دوبارہ نماز ادا کرنا   واجب ہے ۔

   اللہ تعالیٰ نے مسافر کو قصر نماز کاحکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا﴿وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِترجمہ کنزالعرفان: اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو۔ (پارہ5 سورۃ النساء،آیت 101)

   مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:710ھ/1310ء) لکھتے ہیں: القصر عزيمة غير رخصة ولا يجوز الاكمال  ترجمہ: نماز میں قصر کرنا عزیمت ہے ،رخصت نہیں اور مکمل چار رکعت ادا کرنا، جائز نہیں ۔(تفسیر نسفی،سورۃ النساء ، تحت الایۃ 101  ،  جلد1، صفحہ390، مطبوعہ   لاھور )

   صحيح مسلم شریف میں ہے:عن يعلى بن أميّة، قال: قلت لعمربن الخطاب:( ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصّلاة، إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا) فقد أمن الناس، فقال: عجبت مماعجبت منه، فسألت رسول اللہ  صلى اللہ عليه وسلّم عن ذلك، فقال صدقة تصدق اللہ بها عليكم، فاقبلوا صدقته ترجمہ: حضرت یعلیٰ بن امیّہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے عرض کی ( اللہ پاک نے تو یہ فرمایا ): تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر خوف ہوکہ کافرتمہیں فتنہ میں ڈالیں گے ،اب تولوگ امن میں ہیں ۔فرمایا:جس چیز سے تمہیں تعجب ہوا ہے مجھے بھی اس سےتعجب ہواتھا،تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا،تو ارشاد فرمایا:یہ صدقہ ہے، جو  اللہ نے تم پرتصدق فرمایا،تو اس کاصدقہ قبول کرو۔(الصحیح لمسلم ،کتاب صلوۃ المسافر ،جلد 1،صفحہ  241،مطبوعہ کراچی)

   اور علامہ برہان الدین علی بن ابو بکر مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:593ھ/1196ء) لکھتے ہیں:فرض المسافر فی الرباعیۃ رکعتان لایزید علیھما  ترجمہ: مسافرکےچار رکعت والے  فرض  دو رکعتیں  ہیں  ،ان پر زیادتی نہیں کرسکتا۔ (ھدایہ،کتاب الصلاۃ ،جلد   اوّلین ،صفحہ 174،مطبوعہ لاھور )

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:مسافر پر واجب ہے کہ نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑھے اس کے حق میں دو ہی رکعتیں پوری نماز ہے اور قصداً چار پڑھیں اور دو پر قعدہ کیا تو فرض ادا ہوگئے اور پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئيں،مگر گنہگار و مستحق ِنار ہوا کہ واجب ترک کیا،لہٰذا تو بہ کرے اور دو رکعت پر قعدہ نہ کیا، تو فرض ادا نہ ہوئے اور وہ نماز نفل ہوگئی۔‘‘    (بھار شریعت ،جلد 1  ، حصہ 4،صفحہ 743،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   دوکی جگہ چاررکعتیں اداکرنے والے مسافر کے متعلق تنویر الابصار ودرمختارمیں ہے:(فلو اتمّ مسافر ،ان قعد فی )القعدۃ (الاولیٰ تمّ فرضہ و)لکنّہ (أساء)لوعامداً لتاخیر السلام وترک واجب القصر  ترجمہ: اگر مسافر نے نماز مکمل پڑھ لی اور قعدہ اولیٰ میں بیٹھا،تو اس کے فرض مکمل ہوگئے ،  لیکن براکیاجب کہ جان بوجھ کر ایساکیاہو،اس لیے کہ سلام میں تاخیر ہوئی اور قصرکاواجب ترک ہوا۔(تنویرالابصار مع درمختار،کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ المسافر،جلد 2،صفحہ 733،734،مطبوعہ کوئٹہ )

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:فعلم انّ الاساءۃ ھنا کراھۃ التحریم ترجمہ:معلوم ہوا یہاں اساءۃ سے مراد کراہتِ تحریمی ہے۔  (ردالمحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلاۃ ،باب صلاۃ المسافر،جلد 2،صفحہ734،مطبوعہ کوئٹہ )

   اور کراہتِ تحریمی کےساتھ ادا کی گئی نماز کااعادہ واجب ہونے کے بارے میں درمختار میں ہے:کل صلاۃ ادّیت مع کراھۃ التحریم تجب اعادتھا “ ترجمہ: ہروہ نماز جو کراہتِ تحریمی کےساتھ اداکی گئی اس کولوٹانا واجب ہے۔(الدرالمختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ ،واجبا ت الصلاۃ،جلد2،صفحہ 182،مطبوعہ کوئٹہ )

   مسافر  نے جان بوجھ کردو کی بجائے  چاررکعتیں اداکیں ، تو اعادہ لازم ہونے کے متعلق  علامہ بدرالدین محمو د بن احمد عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:اذا صلی اربعاً متعمّداً اعادھا  ترجمہ: جب(مسافر)جان بوجھ کر چاررکعتیں اداکرے،تو اس نمازکااعادہ کرے۔(البنایۃ،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،جلد 3،صفحہ 10،مطبوعہ کوئٹہ )

   سیّدی  اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:جس پرشرعاً قصر ہےاور اس نےجہلاً (پوری)پڑھی اس پر مواخذہ ہےاور اس نماز کاپھیرناواجب ۔ “(فتاویٰ رضویہ ،کتاب الصلاۃ ،صلاۃ المسافر،جلد8،صفحہ 270،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ، لاھور )

   مسافر نے بھولے سے چار رکعتیں اد اکر لیں،تو سجدہ سہو کرنے کے متعلق مُصنّف عبدُ الرزَّاق میں  ہے: عن الحسن في مسافريسهو فيصلي الظهرأربعا قال: يسجد سجدتي السهو ترجمہ: امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سےاس مسافر کے متعلق مروی ہے  جو ظہر کی (دو کی بجائے ) چار رکعات ادا کرلے  ،فرمایا :وہ سہو  کے دو سجدے کرے ۔ (مصنف عبدا لرزاق ، باب مسافر امّ  مقیمین ، جلد 2 ، صفحہ 541  ، مطبوعہ المجلس العلمی ، ھند )

   اور علامہ شُرُنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1069ھ/1658ء) لکھتے ہیں: (فإذا  أتم الرباعية) و الحال أنه (قعد القعود الأول) قدر التشهد (صحت صلاته) لوجود الفرض في محله وهو الجلوس على الركعتين وتصير الأخريان نافلة له (مع الكراهة ) لتأخير الواجب وهو السلام عن محله إن كان عامدا فإن كان ساهيايسجدللسهو  ترجمہ:  اور جب مسافر چار رکعتیں پوری پڑھ  لے اوردوسری رکعت پر بقدرِ تشہد بیٹھا ہو  ، تو اس کی نماز( کراہت کے ساتھ) درست  ہوجائے گی ،کہ فرض اپنے محل میں پایا گیا اور وہ دو رکعتوں کے بعد بیٹھنا ہے اور آخری دو رکعتیں نفل ہوجائیں  گی،مگر یہ نما زمکروہ ہوئی ،اس لیے کہ  سلام کاواجب اپنے  محل سے مؤخر ہوا  ، جبکہ اس نے جان بوجھ کرایسا  کیا ہو ، اور اگر بھولے سے چار پڑھیں ہو ں  ،تو سجدہ سہو کرے گا ۔(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،  باب صلاۃ المسافر ، صفحہ222، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   سجدہ سہو واجب ہونے کے  باوجود نہ کیا ،تو  نماز واجب الاعادہ ہونے کے متعلق صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’اگر سہواً واجب ترک ہوا اور سجدہ سہو نہ کیا  ، جب بھی اعادہ واجب ہے۔‘‘(بھار شریعت ، حصہ 4 ،جلد1، صفحہ  708،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ  ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم