Shafi Imam Fajar Mein Qunoot Nazila Parhe To Hanafi Kya Kare ?

شافعی امام فجر میں قنوت نازلہ پڑھے تو حنفی کیسے اقتداء کرے ؟

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2665

تاریخ اجراء: 24رمضان المبارک1445 ھ/04اپریل2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرے گھر کے قریب ایک مسجد ہے،جس  میں فجر کی نماز کبھی حنفی امام پڑھاتے ہیں اور کبھی شافعی امام پڑھاتے ہیں،شافعی امام  نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور دعا پڑھتے ہیں۔کیا   میں شافعی  امام کے پیچھے ان کے طریقے کے مطابق فجر کی نماز ادا کرسکتاہوں؟کیا  ان کے پیچھے میری نماز  ہوجائے گی یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حنفی شخص کی شافعی امام کے پیچھے نماز کے درست ہونے اور نہ ہونے سے متعلق   کچھ تفصیل ہے ،بعض صورتوں میں اقتدا جائز نہیں ،جبکہ بعض صورتوں میں اقتدا کی جاسکتی ہے۔تفصیل اس کی  یہ ہے کہ :

   اگر حنفی کو   شافعی امام کے متعلق معلوم ہو کہ اُس نے اِس خاص نماز  میں طہارت اور نماز کی شرائط و فرائض  میں مذہبِ حنفی کی رعایت نہیں کی  تو اُس کے پیچھے حنفی کی  نماز باطل ہے یعنی  اصلاً   نماز ہی ادا نہیں ہوگی ۔

   اور اگر خاص اِس  نما ز کا حال معلوم نہیں، مگر عادت معلوم ہے کہ غالب طور پر مذہب ِحنفی کی رعایت نہیں کرتا،  تو اب اس کے پیچھے حنفی کی  نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی ، یعنی اُس نماز کو  دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا۔

   البتہ! اگررعایت کرنے  اور نہ  کرنےسے متعلق  کچھ   عادت معلوم نہیں، تو  اب اس کے پیچھے حنفی کی  نماز ہوجائے گی،مگر مکروہ تنزیہی یعنی  ناپسندیدہ ہوگی۔

   اوراگر مذہب حنفی کی رعایت کرنے سے متعلق شافعی  امام    کی   عادت معلوم ہو کہ ہمیشہ رعایت کرتاہےلیکن خاص اس نمازمیں رعایت کی ہے یانہیں،یہ معلوم نہیں تواس صورت میں حکم پہلے سے ہلکاہے لیکن کچھ نہ کچھ  کراہت ہے ۔

ہاں اگر خاص  اِس نماز میں مذہبِ حنفی کی رعایت کرنا معلوم ہو تو اب   بلاکراہت نماز   جائز  ہوگی،مگر اس میں بھی افضل یہی ہے کہ کسی سنی  صحیح العقیدہ حنفی   امام کی اقتدا میں نماز ادا کرے۔

   مذکورہ تفصیل کے مطابق  جس صورت میں شافعی  امام کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہو،اُس صورت میں آپ   شافعی امام کے پیچھے نماز ادا کرسکتے ہیں،آپ  کی نماز درست ادا ہوجائے گی جبکہ وہ  امام  سنی صحیح العقیدہ شافعی ہو ،بدمذہب نہ ہو۔  جہاں تک شافعی حضرات کے نماز فجر میں قنوت پڑھنے کا مسئلہ ہے، تو حنفی  کیلئے اس کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب شافعی  امام  نمازِ فجر کی   دوسری رکعت میں  رکوع کے بعد  قنوتِ    نازلہ پڑھے،  تو حنفی مقتدی   اُس  میں   شافعی   امام    کی پیروی  نہ کرے  ،یعنی ہاتھ اٹھا کر اس کے ساتھ دعا  میں شامل نہ ہو،بلکہ  ہاتھ چھوڑکر خاموش کھڑا  رہے۔

   مذاہب اربعہ میں سے کسی دوسرے مذہب والے کی اقتدا   کب درست ہے اور کب نہیں،اس  کے متعلق،سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’مذاہب اربعہ حقّہ سے کسی دوسرے مذہب والے کے پیچھے حنفی کی اقتداء میں بھی چند صورتیں ہیں:(۱)اس خاص نماز میں معلوم ہو کہ امام نے کسی فرض یا شرطِ وضو یانماز یا امامت مطابق مذہب حنفی کی رعایت نہ کی،اس صورت میں اُس کے پیچھے حنفی کی نماز محض باطل ۔(۲)خاص نماز کا حال معلوم نہ ہو مگر اس کی عادت معلوم ہے کہ غالباً امورمذکورہ میں مذہب حنفی کی مراعات نہیں کرتا تواس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۳)عادت بھی معلوم نہیں تو اس کی امامت مکروہ ہے اور ارجح یہ کہ اب یہ کراہت تحریمی نہیں۔(۴)عادت یہ معلوم ہے کہ ہمیشہ مراعات کا التزام کرتا ہے تو صورت سوم سے حکم اخف ہے مگر ایک گُونہ کراہت سے ہنوز خالی نہیں۔(۵) خاص اس نماز کا حال معلوم ہے کہ اس میں اس نے جمیع امور مذکورہ کی رعایت کی ہے تو اب عندالجمہور کراہت اصلاً نہیں اگرچہ پہلے عادت عدم مراعات رکھتا ہو پھر بھی افضل یہی ہے کہ مل سکے تو موافق المذہب کی اقتداء کرے‘‘۔(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ505،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   اگرحنفی  مقتدی ،شافعی امام کی اقتدا میں نماز فجر ادا کرے،تو قنوت میں شافعی امام  کی اتباع  نہ کرے،بلکہ خاموش کھڑا رہے،جیسا کہ نورالایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے :’’(واذا اقتدى بمن يقنت في الفجر)کشافعی( قام معه في قنونته ساكتا في الأظهر)لوجوب متابعتہ فی القیام( ويرسل يديه في جنبيه)لانہ ذکر لیس مسنونا ‘‘ترجمہ:اور جب کوئی کسی ایسے امام کی اقتدا کرے جو فجر میں قنوت پڑھتاہو جیسے شافعی امام،تو اظہر قول کے مطابق مقتدی  اس کے ساتھ خاموش کھڑا  رہے کیونکہ قیام میں اس کی پیروی واجب ہے اور اپنے ہاتھ پہلوؤں کی طرف چھوڑ دے کیونکہ  یہ مسنون ذکر نہیں۔ ( نور الایضاح مع مراقی الفلاح ،جلد1،باب الوتر  ،  صفحہ143،دار الکتب العلمیہ، بیروت )

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:’’قومہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا شافعیہ کے نزدیک نمازِ فجر کی رکعت اخیرہ میں ہمیشہ(جبکہ) وتر کی تیسری میں صرف نصف اخیر شہرِ رمضان المبارک میں ہے کہ وہ ان میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں۔قنوت ِفجر تو ہمارے ائمہ کے نزدیک منسوخ یابدعت، بہرحال یقینا ً نامشروع ہے۔لہذا اس میں پیروی ممنوع ،اور جب اصل قنوت میں متابعت نہیں تو ہاتھ اٹھانے میں کہ اس کی فرع ہے اتباع کے کوئی معنی نہیں مگر اصل قومہ رکوع فی نفسہ مشروع ہے لہذا وُہ جب تک نمازِفجر میں قنوت پڑھے مقتدی ہاتھ چھوڑے چُپکا کھڑا رہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ410،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم