Sayyiduna Ameer Muawaiya Ke Naam Par Masjid Ka Naam Rakhna

 

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پر مسجد کا نام رکھ سکتے ہیں؟

مجیب:ابو تراب محمد علی عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری   

فتوی نمبر: Pin-7497

تاریخ اجراء: 24صفر المظفر1446ھ/30اگست 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ کسی مسجد کا نام حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اورگستاخِ صحابہ،  بدعقیدہ  لوگوں  ، خصوصا ًآج کے زمانے میں اہل حق کے نام کی چادر اوڑھ کر چھپے ہوئے بدعقیدہ لوگوں کے مقابلے میں اہل سنت کی پہچان ہیں۔ ان کے نام پر مسجد کا نام  رکھنا بلاشبہ جائزہے۔

   اور ویسے مساجد کے نام میں عمومی حکمت  یہ ہے کہ جس طرح دیگر جگہوں کی پہچان کی خاطر مختلف نام رکھے جاتے ہیں، یونہی مساجد کو بھی مختلف ناموں سے موسوم کر دیا جاتا ہے، یہ نسبت کبھی مقدس ہستیوں کی طرف ہوتی ہے، جیسے مسجدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم( یعنی مسجدِ نبوی)، تو کبھی کسی  آبادی/قبیلہ کی طرف نسبت کرتے ہوئےنام رکھ دیا جاتا ہے، جیسا کہ مسجد بنی معاویہ،  جو مدینہ پاک میں دورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی موجودتھی (اب مسجدِ اجابہ کے نام سے معروف ہے)، اس کا نام انصار کے ایک قبیلے ’’بنی معاویہ‘‘ کے نام پر رکھا گیا ،اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے نماز بھی ادا فرمائی، یونہی احادیث میں مسجد بنی زریق کا ذکر ہے، یہ بھی  قبیلے کے نام پر ہے۔ اس کے تحت محدثین کرام نے فرمایا کہ مسجد بنانے والے یا اس میں نماز پڑھنے والے اپنی طرف نسبت کرتے ہوئے مسجد کا نام رکھیں، تب بھی کچھ حرج نہیں کہ بنیادی مقصد پہچان ہے، جو کسی طرح بھی حاصل ہو سکتی ہے۔

   اس سے واضح ہو اکہ مساجد کا نام جب  کسی بھی شخص، جگہ یا قبیلے کے نام پر رکھنا درست ہے، تو صحابی رسول کے مبارک نام پر رکھنا بدرجہ اولیٰ درست ہو گا،  بلکہ مسجد کے ساتھ  صحابی رسول کا ذکر خیر ہوگا ، تو  یقیناً یہ مزید خیر و برکت کا سبب ہے۔

   صحابہ کرام علیہم الرضوان میں مسجدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہنا رائج تھا۔ حضرت سیدنا شعبہ بن مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’سمعت أبا هريرة، ونحن في مسجد الرسول صلى اللہ عليه وسلم، يقول: قال محمد رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم۔۔۔الخ ‘‘ ترجمہ: ہم مسجدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تھے کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ کو کہتے ہوئےسنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا۔۔۔ الخ۔(مسند امام احمدبن حنبل، جلد 16، صفحہ 32، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

   مسجد بنی معاویہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادافرما کر رب عزوجل سے تین دعائیں کیں، دو قبول فرما لی گئیں اور ایک سے منع کر دیا گیا۔ صحیح مسلم میں حضرت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ’’ أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أقبل ذات يوم من العالية، حتى إذا مر بمسجد بني معاوية، دخل فركع فيه ركعتين وصلينا معه ودعا ربه طويلا، ثم انصرف إلينا، فقال صلى اللہ عليه وسلم:سألت ربي ثلاثا، فأعطاني ثنتين ومنعني واحدة، سألت ربي: أن لا يهلك أمتي بالسنة فأعطانيها وسألته أن لا يهلك أمتي بالغرق فأعطانيها وسألته أن لا يجعل بأسهم بينهم فمنعنيها ‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن مقامِ عالیہ سے تشریف لاتے ہوئے مسجد بنی معاویہ کے پاس سے گزرے، تو اس میں داخل ہو  کر دو رکعت نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ علیہ السلام کے ساتھ نماز  پڑھی اور آپ علیہ السلام نے اپنے رب سے طویل دعا کی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں، اللہ تعالیٰ نے دو عطا فرمائیں اور ایک سے منع فرمایا ہے۔ میں  نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو قحط سالی سے ہلاک نہ کرے، یہ مجھے عطا کر دی اور سوال کیا کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرے، تو مجھے عطا فرما دی اور (پھر) سوال کیا کہ ان کی آپس میں لڑائی نہ ہو، تو مجھے اس سوال سے منع فرما دیا۔(صحیح المسلم، کتاب الفتن واشتراط الساعۃ، جلد 2، صفحہ 390، مطبوعہ کراچی)

   علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: ’’مسجد بني معاوية ويعرف بمسجد الإجابة ‘‘ ترجمہ: مسجد بنی معاویہ اور یہ مسجد اجابہ کے نام سے معروف ہے۔(فتح الباری، جلد 1، صفحہ 571، مطبوعہ بیروت)

   ”مرآۃ المناجیح‘‘ میں ہے:’’بنی معاویہ انصار کا ایک قبیلہ ہے،انہوں نے اپنے محلہ میں مسجد بنائی تھی جسے مسجد بنی معاویہ کہا جاتا تھا۔‘‘(مرآۃ  المناجیح، جلد 8، صفحہ 13، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   احادیث میں مسجد بنی زریق کا ذکر ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے: ’’أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ۔۔۔ سابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔۔۔ غیر مضمر گھوڑوں (وہ گھوڑے جنہیں پرورش کے مخصوص مرحلہ سے نہیں گزارا گیا تھا) کے درمیان  ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک دوڑ کروائی۔(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 59، مطبوعہ  کراچی)

   اس کے تحت شارح بخاری  علامہ ابو الحسن علی بن خلف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’فی ھذا الحديث جواز إضافتها إلى البانين لها، والمصلى فيها، ۔۔۔وليست إضافة المسجد إلى بنى زريق إضافة ملك، وإنما هى إضافة تمييز‘‘ ترجمہ: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کی نسبت اس کے بنانے یا اس میں نماز پڑھنے والوں کی طرف کرنا، جائز ہے ۔۔۔ اور یہاں مسجد کی بنی زریق کی طرف اضافت ملکیت کو ظاہر کرنے کے لیے نہیں، بلکہ فقط  پہچان کے لیے ہے۔(شرح بخاری لابن بطال، جلد 2، صفحہ 71، مطبوعہ ریاض)

   ’’مرآۃ المناجیح‘‘ میں ہے:’’ زریق ایک قبیلہ کا نام ہے جس کے مورث اعلیٰ کا نام زریق تھا، اس قبیلہ کے محلہ میں یہ مسجد تھی، اس لیے اسے مسجد بنی زریق کہتے تھے۔‘‘(مرآۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 471، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   ذکرِ صالحین نزولِ رحمت کا سبب ہے۔ حضرت سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’عند ذكر الصالحين تنزل الرحمة ‘‘ یعنی صالحین کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے۔(حلیۃ الاولیاء، جلد 7، صفحہ 285، مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم