Sajda Tilawat Kafi Miqdar Mein Reh Gaye Ho, To Un Ki Adaigi Ka Kya Hukum Hai ?

سجدہ تلاوت کافی مقدار میں رہ گئے ہوں، تو ان کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Nor-12734

تاریخ اجراء:03شعبان المعظم1444ھ/24فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے بہت سے سجدہ تلاوت رہ گئے ہیں ، مطلب یہ کہ اس نے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے آیاتِ سجدہ تو پڑھی ہیں مگر ان کے سجدے ادا نہیں کیے۔ اب اس صورت میں زید ان سجدوں کو کیسے پورا کرے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بیرونِ نماز آیتِ سجدہ پڑھی ہو تو فی الفور سجدہ تلاوت کرنا واجب نہیں ہوتا، البتہ بہتر یہ ہے کہ باوضو ہو اور مکروہ وقت نہ ہو تو فی الفور سجدہ تلاوت ادا کرلیا جائے کہ بلا وجہ شرعی سجدہ تلاوت کی ادائیگی میں تاخیر کرنا شرعاً مکروہِ تنزیہی و ناپسندیدہ عمل ہے۔

    پوچھی گئی صورت میں زید  کے لیے حکمِ شرع یہ ہے کہ وہ غالب گمان کرے،  جتنے سجدوں پر اس کا گمان جمے اتنے سجدے ادا کرلے تو وہ برئی الذمہ ہوجائے گا۔

    تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”(وھی علی التراخی)علی المختار، و یکرہ تاخیرھا تنزیھاً“یعنی بیرونِ نماز آیتِ سجدہ پڑھی تو مختار قول کے مطابق تاخیر کے ساتھ سجدہ تلاوت واجب ہے، البتہ سجدہ تلاوت کی ادائیگی میں (بلا عذر) تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔

     (قوله تنزیھاً)کے تحت فتاویٰ شامی میں ہے:” لانہ بطول الزمان قد ینساھا، ولو کانت الکراھۃ تحریمیۃ لوجبت علی الفور، ولیس کذلک“ترجمہ: کیونکہ زمانہ طویل ہوجانے کے سبب ممکن ہے کہ قاری  سجدہ تلاوت کرنا بھول جائے، اور اگر یہ کراہت تحریمی ہوتی تو فی الفور اس پر سجدہ تلاوت واجب ہوتا، لیکن یہاں معاملہ ایسا نہیں ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 703، مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”سجدات کلام اﷲ شریف وقت تلاوت معاً ادا کرے یا جس وقت چاہے؟“آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”سجدہ صلوتیہ جس کا اداکرنا نماز میں واجب ہو اس کا وجوب علی الفور ہے، یہاں تک کہ دوتین آیت سے زیادہ تا خیر گناہ ہے اور غیر صلوٰتیہ میں بھی افضل واسلم یہی ہے کہ فوراً اداکرے جبکہ کوئی عذر نہ ہو ۔کہ اٹھارکھتے ہیں بھول پڑتی ہے وفی التاخیر اٰفات( دیر کرنے میں آفات ہیں۔ ت) ولہذا علماء نے اس کی تاخیر کو مکروہِ تنزیہی فرمایا مگر ناجائز نہیں۔(فتاوی رضویہ، ج08، ص233، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

    بہار شریعت میں ہے:” آیت سجدہ بیرون نماز پڑھی تو فوراً سجدہ کر لینا واجب نہیں ہاں بہتر ہے کہ فوراً کر لے اور وضو ہو تو تاخیر مکروہِ تنزیہی۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 733، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    مکروہ اوقات میں آیتِ سجدہ پڑھی تو سجدہ تلاوت کرنے کے متعلق صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت میں نقل فرماتے ہیں:”ان اوقات (مکروہہ) میں آیت سجدہ پڑھی تو بہتر یہ ہے کہ سجدہ میں تاخیر کرے ،یہاں تک کہ وقتِ کراہت جاتا رہے اور اگر وقت مکروہ ہی میں کر لیا تو بھی جائز ہے۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 454، مکتبۃ المدینہ،کراچی، ملخصاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم