مجیب:ابو حمزہ محمد حسان عطاری
مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0445
تاریخ اجراء:23ربیع الآخر1446ھ/26 نومبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ میں ظہر کی چار سنتیں ادا کر رہا تھا، مجھ سے نماز کا ایک واجب چھوٹ گیا، مجھے سجدۂ سہو کرنا تھا، لیکن میں نے التحیات پڑھنے کے بعد درود ابراہیمی اور دعا بھی پڑھ لی، پھر مجھے یاد آیا کہ سجدۂ سہو کرنا ہے، تو میں نے دوبارہ التحیات پڑھی اور سجدۂ سہو کیا، پھر التحیات، درود ابراہیمی اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ اس صورت میں میری نماز ہوئی یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آپ کی نماز ہوگئی، دوبارہ پڑھنے کی حاجت نہیں۔
تفصيل اس کی یہ ہے کہ اگر کسی پر سجدۂ سہو واجب ہو، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ قعدۂ اخیرہ میں صرف التحیات پڑھ کر سلام پھیرے اور سجدۂ سہو کرے اور یہ بھی جائز بلکہ بہتر اوراحوط ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے اور بعد دونوں میں التحیات کے ساتھ درود ابراہیمی اور دعا پڑھ لے اور قعدہ اخیرہ میں جو تکرارِ تشہد کیا یعنی سجدہ سہو سے پہلے دو مرتبہ تشہد پڑھ لیا،تو اس سے بھی کوئی سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا،کیونکہ التحیات دعا و ثنا ہےاور قعدۂ اخیرہ کےمحلِ دعا و ثناء ہونے کے سبب نمازی کو دعاو ثناءکی کثرت کرنے کا اختیار ہے،لہذا نمازی پر جوپہلے سجدۂ سہو لازم تھا، اس کی ادائیگی شرعاً درست ہونے کےسبب نماز درست ہے۔
امداد الفتاح اور حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے،واللفظ للآخر:’’(ویأتی فیہ بالصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم والدعاء علی المختار)قال فخر الاسلام: انہ اختار عامۃ اھل النظر من مشائخنا ،وھو المختار عندنا، وذکر قاضی خان وظھیر الدین ان الاحوط الاتیان بذالک فی القعدتین و اختارہ الطحاوی‘‘ترجمہ:اور مختار قول کے مطابق وہ(جس پر سجدۂ سہو لازم ہے)سجدۂ سہو کے بعد والے قعدے میں حضور علیہ السلام پر درود اور دعا پڑھے گا۔امام فخر الاسلام فرماتے ہیں:اسی قول کو ہمارے مشائخ میں سے اہل نظر نے اختیار کیا ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہی مختار ہے،جبکہ امام قاضی خان اور ظہیر الدین علیہما الرحمۃ نے ذکر کیا کہ دعا و درود دونوں قعدوں میں پڑھنا احوط ہے اور اسی قول کو امام طحاوی نے اختیار کیا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،صفحہ461،دار الکتب العلمیہ)(امداد الفتاح،صفحہ509،مطبوعہ لاھور)
حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں اِن اقوال کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:’’اکثر التصحیح للاول،لکنہ یجوز العمل بای قول منھما لتصحیحہ‘‘ترجمہ:اکثر تصحیحات پہلے قول کی ہیں، لیکن ان میں سے کسی بھی قول پر عمل کرنا، جائز ہے، کیونکہ ہر ایک کی تصحیح موجود ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار،صفحہ461،دار الکتب العلمیہ)
فتاوی امجدیہ میں احناف کے نزدیک سجدۂ سہو کے چار طریقوں کے متعلق سوال ہوا جس میں سے تیسرا طریقہ یہ تھا کہ سجدۂ سہو سے پہلے اور بعد والے دونوں قعدوں میں التحیات اور درود و دعا سب پڑھے،اس کے جواب میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’سوال میں تین صورتیں جو پہلے تحریر کی ہیں،سب درست ہیں،ان میں سے کوئی صورت مکروہ بھی نہیں اور یہ سب مذہب حنفی کے مطابق ہیں،صورت سوم کو مذہب شافعیہ بتانا اور یہ کہنا کہ حنفی کو اس پر عمل درست نہیں ہے،بالکل غلط ہے۔۔درود و دعا کے بارے میں اختلاف ہے کہ سجدۂ سہو سے پہلے جو قعدہ ہے ،اس میں ہونا بہتر ہے یا اس قعدے میں جو سجدہ کے بعد ہے۔در مختار میں ہے’’قیل فیھما احتیاطا‘‘ (یعنی): احتیاط یہ ہے کہ دونوں میں ہو،اور وجہ احتیاط یہ ہے کہ جو پہلے قعدہ میں پڑھنے کو فرماتے ہیں،وہ دوسرے میں پڑھنے کو منع نہیں کرتے اور جو دوسرے میں کہتے ہیں،وہ پہلے میں منع نہیں کرتے۔لہذا دونوں میں پڑھیں تاکہ اختلاف سے بچیں اور خلاف سے بچنا بلاشبہ احوط ہے اور جہاں اس کی صورت نکلتی ہے، وہاں اس کو اختیار کرتے ہیں۔اس کی نظیر مسائل فقہیہ میں کثیر ہے۔‘‘(فتاوی امجدیہ،جلد1،صفحہ281،مطبوعہ کراچی)
قعدۂ اخیرہ میں تکرارِ تشہد موجبِ سجدۂ سہو نہیں۔ منیۃ المصلی اور حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے، و اللفظ للاول:’’وان قرأ الفاتحۃ فی الاخیرین مرتین۔۔او قرأ التشھد مرتین فی القعدۃ الاخیرۃ۔۔ لا سھو علیہ کذا المختار‘‘ترجمہ:اگر آخری دو رکعتوں میں فاتحہ دو بار پڑھی یا قعدۂ اخیرہ میں تشہد دو بار پڑھی، تو اس پر سجدۂ سہو لازم نہیں۔یہی مختار قول ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،صفحہ461،دار الکتب العلمیہ )
اس کے تحت حلبۃ المجلی میں ہے:’’اما بقراءۃ التشھد مرتین فی القعدۃ الاخیرۃ،فعلل بانہ فی محلہ، و الاولی ان یعلل بما ذکرناہ من انہ موسع لہ فی الدعا فی ھذہ القعدۃ،فھذا التکرار لاینزل عن تطویل فیہ،وذالک غیر موجب لسجود السھو،فکذا ھذا‘‘ترجمہ: قعدۂ اخیرہ میں دو بار تشہد پڑھنے سے(سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا)اس کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ تشہد اپنے محل میں واقع ہوئی ہے، اور اولیٰ وہ علت ہے، جو ہم نے بیان کی کہ نمازی کو اس قعدے میں دعا پڑھنے کا اختیار حاصل ہے،لہذا یہ(تکرار تشہد)دعا میں طوالت سے نزول نہیں کرےگی، اور دعا میں طوالت سجدۂ سہو کا موجب نہیں، یوں ہی یہ(تشہد پڑھنا)بھی ہے۔(منیۃ المصلی مع حلبۃ المجلی،جلد2،صفحہ445،دار الکتب العلمیہ)
تشہد کے متعلق رسائل الارکان اور غنیۃ المتملی میں ہے:واللفظ للاول:’’التشھد ثناء‘‘ترجمہ:تشہد ثناء ہے۔ (رسائل الارکان،الرسالۃ الاولی،صفحہ275،دار الکتب العلمیہ)(غنیۃ المتملی،صفحہ460،مطبوعہ کوئٹہ)
تبیین الحقائق میں قعدہ اخیرہ کے متعلق ہے:’’انھا محل للذکر والدعا‘‘ترجمہ: قعدہ اخیرہ ذکرو دعا کا محل ہے۔(تبیین الحقائق ،جلد1،صفحہ193،مطبوعہ قاھرہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟