Sahib e Tarteeb Ki Namaz Fasid Hui Aur Chand Namazain Parhne Ke Baad Ilm Hua To

 

صاحب ترتیب کی نماز فاسد ہوئی اور چند نمازیں پڑھنے کے بعد علم ہوا، تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0152

تاریخ اجراء: 02  محرم الحرام 1445ھ/21 جولائی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میری ایک بھی نماز  قضاء نہیں تھی ،میں  امام کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا اور انہوں  نے اس میں قراءت کرتے ہوئے ایسی غلطی کی جس سے معنیٰ فاسد ہونے کےسبب نماز فاسد ہوگئی ،لیکن مجھے اس  مسئلہ کا  علم نہیں ہوا،لہٰذا میں بقیہ وقتی نمازیں پڑھتا رہا اور میں نے اگلے دن کی عشاء کی نماز بھی پڑھ لی ،پھر مجھے  نماز ظہر کے بعد ایک مفتی صاحب سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ معنیٰ فاسد ہونے کے سبب نماز فاسد ہوچکی تھی، تو میں نے نماز ظہر کے بعد  اس فاسد نماز کا اعادہ کرلیا، تو اب سوال یہ پوچھنا ہے کہ میری وقتی نمازیں ہوئیں یا نہیں ؟ اور میں اب پھر سے صاحب ترتیب ہوں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ  نے جو وقتی نمازیں پڑھیں اور اس کے بعد فاسد ہوجانے والی قضاء نماز پڑھی  ،وہ سب نمازیں ہوگئیں اور آپ پھر سے صاحبِ ترتیب ہوچکے ہیں ۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ جس  شخص کی کوئی نماز قضاء نہ ہو یا ہوں تو چھ سے کم ہوں ،ایسا شخص صاحب ترتیب کہلاتا ہے  اور جو نماز قراءت میں معنیٰ فاسد ہونے کے سبب فاسد ہوجائے اور اس کا وقت نکل جائے،تو وہ بھی قضاء ہوتی ہے،لہٰذا ایسےشخص پر لازم ہے کہ پہلے قضاء نماز پڑھے،پھر وقتی نماز پڑھے،اگر قضاء نماز یاد ہوتے ہوئے وقت میں گنجائش ہونے کے باوجود وقتی نماز پڑھے گا ،تو وہ نماز نہیں ہوگی ،کیونکہ  پانچوں فرضوں  میں باہم اور فرض و وتر کے درمیان ترتیب ضروری ہے،لیکن اگر کسی شخص  کی ایک نماز قضاء تھی اور  وہ قضاء نماز بھول گیا ،تو اب ترتیب ساقط ہوجائے گی یعنی جتنی وقتی نمازیں قضاء نماز بھولنے کی حالت میں پڑھے گا وہ سب درست ہوجائیں گی ، اور جس کی نماز فاسد ہوگئی لیکن اسے فسادِ نماز کا علم نہیں ہوا اوروہ اس کو پڑھے  بغیر وقتی نمازیں پڑھتا رہا، تو ایسا شخص بھی بھولنے والے ہی کی طرح ہے ،لہٰذا جب ایسا شخص اس قضاء نماز کو پڑھ لے گا ،تو اب وہ پھر سے صاحب ترتیب ہوجائے گا  کہ  جوایک مرتبہ صاحب ترتیب نہ رہا ہواوروہ اپنی تمام قضانمازیں اداکرلے،یہاں تک کہ اس کے ذمہ کوئی قضانمازباقی نہ رہے ،تو ایسا شخص پھر سے صاحب ترتیب ہوجاتا ہے اور اس کے لیے وہی احکام لازم ہوتے ہیں ۔

   نوٹ:صورت مسئولہ میں اگرچہ قضاء نماز کو ملا کر کُل نمازیں چھ سے زیادہ  ہوچکی ہیں،لیکن ترتیب کا ساقط ہونا اور پڑھی ہوئی وقتی نمازوں کا درست ہونا  عدمِ علم ہی کی بناء پرہوگا ،چھ نمازوں کی بنیاد پر یہ حکم جاری نہیں ہوگا ،اس کی دو وجوہات ہیں:(1) چھ نمازوں والی صورت میں فقہائے کرام علیہم الرحمۃ اجمعین نے” تذکّر“ کی قید لگائی ہے یعنی قضاء نماز ہوتے ہوئے پانچ وقتی نمازیں پڑھ لینے  اور قضاء کو ملاکر چھٹی کا وقت گزرجانے کے سبب ترتیب ساقط ہوجانا اور وقتی نمازوں کا صحیح ہونا، اس صورت میں ہے جبکہ قضاء نماز یاد ہو ،یہی وجہ ہے کہ اس صورت میں اگر چھٹی نماز کا وقت گزرنے سے پہلے قضاء نماز پڑھ لی تو اب ساری  نمازیں  فاسد ہوجائیں گی یعنی نفل ہوجائیں گی  جبکہ عدم علم والی صورت میں جتنی وقتی نمازیں پڑھے گا وہ سب درست ہوتی جائیں گی اور اگر وقتی نماز پڑھنے کے بعد قضاء کا علم ہوا، تو وقتی بہرحال درست ہی رہے گی ،اس کے اعادہ کا حکم نہ ہوگا (2)اور  چھ نمازوں والی صورت میں وقتی نمازیں درست ہونےکی وجہ یہ ہے کہ وہ پانچ وقتی نمازیں بھی حکماً قضاء ہوتی ہیں ، اور جب قضاء نمازیں(چاہے حقیقی ہوں یا حکمی)  چھ ہوجائیں تو بھی ترتیب ساقط ہوجاتی ہے،اسی لیے فقہائے کرام علیہم الرحمۃ نے قضاء حکمی میں بھی  تذکر کی قید لگائی ہے،لہٰذا عدم علم والی صورت میں یہ مسئلہ جاری نہیں ہوگا اور  پڑھی ہوئی وقتی نمازیں قضاء حکمی شمار نہیں ہوں گی۔

   جو نماز ایک بار فاسد ہوچکی  اور اس کا وقت نکل گیا، تو وہ قضاء نماز کہلائے گی ،چنانچہ  درمختار  میں ہے :”و القضاء فعل الواجب بعد وقتہ“ترجمہ: اور واجب کو اس کے وقت کے بعد بجالانا قضاء کہلاتا ہے ۔ (الدر المختار مع رد المحتار ،ج 02،ص 632، مطبوعہ کوئٹہ)

   منحۃ الخالق  میں ہے :”ان  وقع الأول فاسدا فھی  داخلۃ فی الأداء أو القضاء“ترجمہ:اگر پہلی نماز فاسد واقع ہوئی ،تو  وہ(جب دوبارہ پڑھی جائے گی اس وقت) یا تو اداء ہوگی (جبکہ وقت میں پڑھی جائے) یا قضاء ہوگی(جبکہ وقت گزرنے کے بعد پڑھی جائے )۔(منحۃ الخالق علی البحر الرائق ،کتاب الصلوٰۃ ،ج 02،ص 139،مطبوعہ کوئٹہ)

   پانچوں فرضوں  میں باہم اور فرض و وتر کے درمیان ترتیب ضروری ہے،چنانچہ کنز الدقائق اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے،واللفظ للآخر:”الترتیب بین الفائتۃ و الوقتیۃ و بین الفوائت مستحق ۔۔وکذا بین الفروض و الوتر “ترجمہ:فوت شدہ نماز اور وقتی نماز  کے درمیان اور دیگر قضاء نمازوں کے درمیان ترتیب رکھنا فرض ہے اور اسی طرح فرائض و وتر کےدرمیان بھی۔(کنز  مع البحر،ج1،ص 140،کوئٹہ)(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلوٰۃ،الباب الحادی عشر،ج01،ص 134،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   صاحب ترتیب پر لازم ہے کہ پہلے قضاء پھر وقتی نماز پڑھے،اگر قضاء نماز یاد ہوتے ہوئے وقت میں گنجائش ہونے کے باوجود وقتی نماز پڑھے گا ،تو وہ نماز نہیں ہوگی ،چنانچہ  فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے :”اور صاحب ترتیب کو وقتی نماز سے پہلے قضاء کا ادا کرنا ضرور،ورنہ وقتی بھی نہ ہوگی۔“ (فتاوٰی رضویہ،ج 08،ص 144،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہار شریعت میں ہے :”صاحبِ ترتیب کے ليے اگر یہ یادہے کہ نماز وتر نہیں پڑھی ہے اور وقت میں گنجائش بھی ہے،تو فجر کی نماز فا سد ہے،خواہ شروع سے پہلے یاد ہو یا درمیان میں یاد آجائے۔“(بھار شریعت، ج 01، ص 653، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اگر کسی شخص  کی ایک نماز قضاء تھی اور  وہ قضاء نماز بھول گیا، تو اب ترتیب ساقط ہوجائے گی ، چنانچہ ذخیرہ برہانیہ میں ہے:”کما یسقط الترتیب لضیق الوقت یسقط بالنسیان“ترجمہ: جس طرح وقت کی تنگی کے باعث نمازوں کے درمیان ترتیب ساقط ہوجاتی ہے اسی طرح قضاء نماز کو بھولنے کی وجہ سے بھی ترتیب ساقط ہوجاتی ہے ۔(الذخیرۃ البرھانیہ، ج02،ص290،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   لہٰذا  جتنی وقتی نمازیں قضاء نماز بھولنے کی حالت میں پڑھے گا وہ سب درست ہوجائیں گی،چنانچہ فتاوی تاتارخانیہ میں ہے :”و فی الخانیۃ :و لو تذکر صلوٰۃ نسیھا بعد ما ادی وقتیۃ جازت الوقتیۃ ،و اما اذا ذکرھا بعد ایام فقد ذکر الشیخ فخر الاسلام علی البزدوی انہ لا یجوز الوقتیۃ ایضا ۔۔و ذکر محمد فی الاصل انہ یجوز الوقتیۃ و ھکذا ذکر الشیخ الامام ابو اللیث فی عیون المسائل و علیہ الفتوٰی“ترجمہ:اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ اگر کسی صاحب ترتیب شخص کو وقتی نماز ادا کرنے کے بعد بھولی ہوئی قضاء نماز یاد آگئی، تو وقتی نماز ہوجائے گی  اور اگر بھولی ہوئی قضاء نماز کچھ دنوں کے بعد یاد آئی تو اس کے متعلق  شیخ فخر الاسلام علی بزدوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وقتی نماز بھی نہیں ہوگی جبکہ امام محمد علیہ الرحمۃ نے اصل میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ وقتی نماز ہوجائے گی اور اسی طرح شیخ امام ابو اللیث علیہ الرحمۃ نے عیون المسائل میں ذکر فرمایا ہے اور اسی پر فتویٰ ہے ۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ،ج02،ص 442،مطبوعہ کوئٹہ)

   جس کی نماز فاسد ہوگئی، لیکن اسے فسادِ نماز کا علم نہیں ہوا اوروہ اس کو ادا کیے بغیر وقتی نمازیں پڑھتا رہا، تو ایسا شخص بھی بھولنے والے ہی کی طرح ہے،چنانچہ  محیط برہانی میں ہے :”انہ صلاھا و عندہ انہ لم یبق علیہ فائتۃ فصار کالناسی و اما اذا کان الرجل عالما لایجزئہ “ترجمہ:جس نے وقتی نماز پڑھی اور اس کا خیال یہ تھا کہ اس پر کوئی بھی قضاء نماز باقی نہیں ہے تو وہ بھی بھولنے والے کی مثل ہے ہاں! جس شخص کو قضاء نماز کا علم ہو، تو اس کے لیے وقتی نماز کافی نہیں ہوگی ۔(المحیط البرھانی ،ج02،ص 351،مطبوعہ ادارۃ التراث الاسلامی،لبنان)

   اسی میں ہے :”صلی العصر و ظن انہ لا ظھر علیہ فیجزئہ کما لو ترک الظھر اصلا و عندہ انہ صلی الظھر فانہ یجزئہ العصر ۔۔۔اذا صلی العشاء بغیر وضوء و ھو لا یعلم بہ ثم توضأ  و صلی الوتر ثم علم انہ صلی العشاء بغیر وضوء فانہ یصلی العشاء و لا یعید الوتر عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ“ ملتقطا۔ ترجمہ: کسی نے نمازِ عصر پڑھی اور اس کا گمان یہ تھا کہ اس پر ظہر کی نماز باقی نہیں ہے ،تو اس کی نمازِ عصر جائز ہوجائے گی ، جیساکہ اگر کسی نے ظہر کی نماز پڑھی ہی نہ ہو اور وہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اس نے ظہر پڑھی ہے ،تو اس کی بھی نمازِعصر درست ہوجاتی ہے ۔۔۔کسی نے عشاء کی نماز بغیر وضو پڑھ لی اور وہ اس بات کو نہیں جانتا تھا، پھر اس نےنمازِ  وتر وضو کرکے پڑھی پھر اس کو اس بات کا علم ہوا کہ اس نے عشاء کی نماز بغیر وضو پڑھی تھی ،تو وہ صرف عشاء کی نماز  دوبارہ پڑھے گا اور وتر نہیں دہرائے گا ، یہ قول امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ (المحیط البرھانی ،ج02،ص 352 ،355، مطبوعہ ادارۃ التراث الاسلامی،لبنان)

   رد المحتار میں ہے :”و اما الجاھل یلحق بالناسی “ترجمہ: اور جس کو علم ہی نہ ہو وہ قضاء نماز بھولنے والے کے ساتھ ملحق ہے ۔(رد المحتار مع الدر المختار،کتاب الصلوٰۃ،باب قضاء الفوائت، ج02،ص 641،مطبوعہ کوئٹہ)

   جوایک مرتبہ صاحب ترتیب نہ رہا ہو  اوروہ  اپنی تمام قضانمازیں اداکرلے ،یہاں تک کہ اس کے ذمہ کوئی قضا نماز باقی نہ رہے ،تو ایسا شخص پھر سے صاحب ترتیب ہوجاتا ہے،چنانچہ تنویر الابصار و   در مختار میں ہے :” (ولا یعود) لزوم الترتیب (بعد سقوطہ بکثرتھا ) أی الفوائت (بعود الفوائت الی القلۃ) بسبب (القضاء) لبعضھا علی المعتمد ،لأن الساقط لا یعود “ترجمہ:اور قضاء نمازوں کی کثرت کی وجہ سے ساقط ہوجانے والی ترتیب  کا لزوم عود نہیں کرے گا،جب بعض قضاء نمازیں پڑھنے کے سبب قضاء نمازیں کم ہوجائیں ،یہی معتمد قول ہے کیونکہ  ساقط ہوجانے والی چیز عود نہیں کرتی ۔

      اس کے تحت رد المحتار میں ہے :”و أما اذا قضی الکل فالظاھر أنہ یلزمہ ترتیب جدید “ترجمہ: اور بہرحال جب ساری قضاء نمازیں پڑھ لے تو ظاہر یہ ہے کہ اس پر نئی ترتیب لازم ہوجائے گی ۔ (رد المحتار مع الدر المختار، ج02،ص 640،مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں ہے :” جب چھ نمازیں قضا ہونے کے سبب ترتیب ساقط ہوگئی، تو ان میں سے اگربعض پڑھ لی کہ چھ سے کم رہ گئیں، تو وہ ترتیب عود نہ کرے گی یعنی ان میں سے اگر دو باقی ہوں ،تو باوجود یاد کے وقتی نماز ہو جائے گی ،البتہ اگر سب قضائیں پڑھ لیں ،تو اب پھر صاحب ترتیب ہوگیا کہ اب اگر کوئی نماز قضا ہوگی تو بشرائط سابق اسے پڑھ کر وقتی پڑھے ورنہ نہ ہوگی۔(بھار شریعت،حصہ 4،ص  705،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   قضاء نماز ہوتے ہوئے پانچ وقتی نمازیں پڑھ لینے  اور قضاء کو ملاکر چھٹی کا وقت گزرجانے کے سبب ترتیب ساقط ہوجانا ،اس صورت میں ہے جبکہ قضاء نماز یاد ہو ، لہٰذا اگر چھٹی نماز کا وقت گزرنے سے پہلے قضاء نماز پڑھ لی تو اب ساری  نمازیں  نفل ہوجائیں گی،چنانچہ رد المحتار میں ہے :”أنه إذا فاتته صلاة ولو وترا فكلما صلى بعدها وقتية وهو ذاكر لتلك الفائتة فسدت تلك الوقتية فسادا موقوفا على قضاء تلك الفائتة، فإن قضاها قبل أن يصلي بعدها خمس صلوات صار الفساد باتا وانقلبت الصلوات التي صلاها قبل قضاء المقضية نفلا، وإن لم يقضها حتى خرج وقت الخامسة وصارت الفواسد مع الفائتة ستا انقلبت صحيحة لأنه ظهرت كثرتها ودخلت في حد التكرار المسقط للترتيب“ترجمہ: جب کسی شخص کی ایک نماز اگرچہ وہ وتر ہو ،قضاء ہوگئی ،تو جب  جب وہ اس فوت شدہ نماز کے یاد ہونے کے باوجود وقتی نماز پڑھے گا تو یہ وقتی نماز فاسد ہوجائے گی ،لیکن اس کا فاسد ہونا اس فوت شدہ نماز کی قضاء کرنے پر موقوف ہوگا ،تو اگر اس فوت شدہ نماز کے بعد پانچ وقتی نمازیں پڑھنے سے پہلے ہی اس کی قضاء پڑھ لی، تو نمازوں کا فاسد ہونا پختہ ہوجائے گا اور وہ ساری نمازیں جو اس نے فوت شدہ نماز کو پڑھنے سے پہلے پڑھیں، نفل ہوجائیں گی،اور اگر اس نے اس فوت شدہ نماز کی قضاء نہیں کی یہاں تک کہ پانچویں نماز کا وقت بھی گزرگیا  اور فاسد ہونے والی نمازیں فوت شدہ نماز سے مل کر  چھ ہوگئیں ،تو وہ سب صحیح ہوجائیں گی ،کیونکہ ان کا کثیر ہونا ظاہر ہوگیا اور وہ اس تکرار کی حد میں  داخل ہوگئیں جو ترتیب کو ساقط کرنے والی ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار ،ج02،ص 641،642،مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی میں ہے :”و قیدوا  اداء الخمسۃ بتذکر الفائتۃ ، فلو لم یتذکرھا سقط للنسیان و لو تذکر فی البعض و نسی فی البعض یعتبر المذکور فیہ ،فان بلغ خمسا صحت و لا نظر لما نسی فیہ “ترجمہ: اور فقہائےکرام علیہم الرحمۃ اجمعین نے پانچ وقتی نمازوں کے ادا ہوجانے میں قضاء کے یاد ہونے کی قید لگائی ہے ،تو اگر کسی کو قضاء نماز یاد ہی نہیں رہی، تو اب ترتیب کا ساقط ہوجانا بھولنے کی وجہ سے ہوگا اور اگر کچھ نمازوں میں قضاء یاد تھی اور کچھ میں بھول گیا ،تو جن میں یاد تھی ان کا اعتبار کیا جائے گا ،لہذا اگر ایسی نمازیں پانچ ہوگئیں ،تو سب صحیح ہوجائیں گی اور جن میں قضاء یاد نہ تھی ان پر نظر نہیں کی جائے گی ۔ (     رد المحتار ،کتاب الصلوٰۃ،باب قضاء الفوائت، ج02،ص،642،مطبوعہ کوئٹہ)

                                                                                               قضاء نماز یاد ہوتے ہوئے وقت میں گنجائش کے باوجود پڑھی ہوئی پانچ وقتی نمازوں کے قضاء حکمی ہونے اور تذکر کی شرط ہونے کے متعلق رد المحتار میں ہے :”و اطلق الست فشمل ما اذا  فاتت حقیقۃ او حکما کما فی القھستانی و الامداد۔۔و مثال الحکمیۃ ما  اذا ترک فرضا و صلی بعدہ خمس صلوات ذاکرا لہ فان الخمس تفسد فسادا موقوفا ،فالمتروکۃفائتۃحقیقۃ و حکما و الخمسۃ الموقوفۃ فائتۃ حکما فقطترجمہ: اور ماتن علیہ الرحمۃ نے چھ نمازوں کو مطلق رکھا ،تو یہ ان تمام نمازوں کو شامل ہوگا جو حقیقی طور پر قضاء ہوں یا حکمی طور پر ،جیساکہ قہستانی اور امداد میں ہے ۔۔اور قضاء حکمی کی مثال یہ ہے کہ کسی نے ایک فرض نماز چھوڑدی اور اس کے بعد قضاء نماز یاد ہونے کے باوجود پانچ وقتی نمازیں پڑھ لیں ،تو یہ پانچ نمازیں فساد موقوف کے طور پر فاسد ہوجائیں گی ،تو جو نماز چھوڑدی تھی وہ تو حقیقی وحکمی دونوں اعتبار سے قضاء ہے اور  جو پانچ نمازیں موقوف ہیں وہ صرف حکمی طور پر قضاء ہیں ۔ (   رد المحتار  ،ج02،ص،637،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم