Safar Mein Sunnaton Ka Hukum Aur Hazrat Abdullah Bin Umar Ki Riwayaat Mein Tatbeeq

سفر میں سنتوں کا حکم ، نیز حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی روایات میں تطبیق

مجیب:مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Book-150

تاریخ اجراء:07رجب المرجب1444ھ/30جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

   (1) مسافرِ شرعی کے لیے نماز کی سنتوں کی ادائیگی کا کیا حکم ہے ؟

   (2)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے ،آپ فرماتے ہیں:’’ لو أتيت بالسنن في السفر لأتممت الفريضة‘‘ یعنی : سفر میں اگر میں نے سنتیں ادا کرنی ہوتیں، تو میں فرض نماز ہی پوری پڑھ لیتا ‘‘اس  فرمان کا کیا محمل ہے ؟برائے کرم رہنمائی فرمائیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)مسافرِ شرعی کو حالتِ خوف و اضطرار میں سنتیں معاف ہیں اور حالتِ امن و قرار میں سنتیں پڑھی جائیں، اگرچہ سنتوں  کا تاکد جو حضر میں ہے وہ سفر میں نہیں رہتا ،کہ سفر خود ہی مشقت کے قائم مقام ہے ،البتہ فجر کی سنتیں کہ یہ قریب بواجب ہیں، سفر کی وجہ سے انہیں ترک کرنے کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا قول یہ بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے ، کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر و حضر کہیں بھی انہیں ترک نہیں کیا۔

   تنویر الابصار و در مختار میں ہے :’’ (ويأتي) المسافر (بالسنن) إن كان (في حال أمن وقرار وإلا) بأن كان في خوف وفرار (لا) يأتي بها هو المختار لأنه ترك لعذر ‘‘ ترجمہ: مسافر اگر حالتِ امن و قرار میں ہے، تو سنتیں ادا کرے گا اور اگر حالتِ خوف و فرار میں ہے، تو سنتیں چھوڑ سکتا ہے یہی مختار ہے، کیونکہ اس صورت میں عذر کی وجہ سے سنتیں ترک کرنا ہے۔

   اس کے تحت رد المحتار میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’وقيل الأفضل الترك ترخيصا، وقيل الفعل تقربا. وقال الهندواني: الفعل حال النزول والترك حال السير، وقيل يصلي سنة الفجر خاصة، وقيل سنة المغرب أيضاً بحر قال في شرح المنية والأعدل ما قاله الهندواني.قلت: والظاهر أن ما في المتن هو هذا وأن المراد بالأمن والقرار النزول وبالخوف والفرار السير لكن قدمنا في فصل القراءة أنه عبر عن الفرار بالعجلة لأنها في السفر تكون غالبا من الخوف تأمل‘‘ ترجمہ: اور کہا گیا ہے کہ افضل یہ ہے کہ سنتیں ترک کر دے رخصت پر عمل کرتے ہوئے ، اور ایک قول کے مطابق سنتیں ادا کرنا افضل ہے ثواب کے حصول کے لیے۔ اور ہندوانی نے کہا: حالتِ نزول میں سنتیں ادا کرے اور حالتِ سیر میں ترک کر دے، اور ایک قول کے مطابق بالخصوص سنتِ فجر ادا کرے، اور ایک قول کے مطابق سنتِ مغرب بھی ادا کرے ، بحر۔ شرح منیہ میں فرمایا: جو ہندوانی  نے کہا وہ سب سے معتدل قول ہے ۔ میں کہتا ہوں : ظاہر یہ ہے کہ جو متن میں بیان ہوا وہ یہی ہے اور امن و قرار سے مراد نزول ہے اور خوف و فرار سے مراد سیر ہے،  لیکن ہم نے قراءت کی فصل میں پہلے بیان کیا کہ فرار کو عجلت سےتعبیر کیا ہے،            کیونکہ سفر میں عجلت خوف سے زیادہ ہوتی ہے ، غور کرو۔ (رد المحتار علی الدر المختار،جلد 2، صفحہ 737،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’ولا قصر في السنن، كذا في محيط السرخسي، وبعضهم جوزوا للمسافر ترك السنن والمختار أنه لا يأتي بها في حال الخوف ويأتي بها في حال القرار والأمن، هكذا في الوجيز للكردري‘‘ ترجمہ: سنتوں میں قصر نہیں ایسا ہی محیط سرخسی میں ہے اور بعض فقہاء نے مسافر کے لیے  سنتیں ترک کرنا ،جائز قرار دیا ہے اور مختار یہ ہے کہ حالتِ خوف میں مسافر سنتیں ادا نہ کرے اور حالتِ قرار و امن میں ادا کرے گا،ایسا ہی وجیز کردری میں ہے۔(فتاوی عالمگیری ، جلد 1،صفحہ153، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

   البحر الرائق میں ہے:’’ والمختار أنه إن كان حال أمن وقرار يأتي بها، لأنها شرعت مكملات والمسافر إليه محتاج، وإن كان حال خوف لا يأتي بها، لأنه ترك بعذر ‘‘ترجمہ: مختار یہ ہے کہ اگر مسافر حالتِ امن و قرار میں ہے، تو سنتیں ادا کرے گا، کیونکہ سنتیں نماز کو مکمل کرنے کے لیے مشروع ہوئی ہیں اور مسافر بھی اس کا محتاج ہے، اور اگر مسافر حالتِ خوف میں ہو، تو سنتیں ادا  نہ کرے کہ اس صورت میں اس نے عذر کی وجہ سے ترک کی ہیں۔(البحر الرائق ،جلد 2، صفحہ 230،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’ سنتوں میں قصر نہیں ،بلکہ پوری پڑھی جائیں گی ،البتہ خوف اور رواداری کی حالت میں معاف ہیں اور امن کی حالت میں پڑھی جائیں۔‘‘( بہار شریعت ، ج 1 ، صفحہ 744، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   صدر الشریعہ ، حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سفر میں سنتیں پڑھنے کے بارے میں سوال ہوا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جوابا فرمایا: ’’اگر سفر میں اطمینان نہ ہو جب تو سنتوں کے ترک میں کوئی قباحت ہی نہیں اور اطمینان ہو جب بھی سنن کا تاکد جو حضر میں ہے وہ سفر میں نہیں رہتا کہ سفر خود ہی قائم مقام مشقت کے ہے۔۔۔ اور یہ حکم سنت فجر کے غیر کاہے اور سنت فجر چونکہ قریب بوجوب ہے، لہذا سفر کی وجہ سے اسے ترک کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا قول یہ بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے، کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر و حضر کہیں بھی اس کو ترک نہیں کیاہے۔واللہ تعالیٰ اعلم‘‘(فتاوی امجدیہ، ج 1، صفحہ 284، مطبوعہ کراچی)

    (2)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سفر میں سنتیں پڑھنے اور نہ پڑھنے کے حوالے سےدونوں طرح کی روایات مروی ہیں، بعض میں سنتیں پڑھنے کا ذکر ہے اور بعض میں نہ پڑھنے کا، جن میں دو طرح سے تطبیق دی گئی  ہے۔

تطبیق کی پہلی صورت:

   جن روایات میں پڑھنے کا ذکر ہے ان میں عزیمت کا بیان ہے اور جن میں نہ پڑھنے کا ذکر ہے، ان میں رخصت کا بیان ہے، لہٰذا اگر کوئی سفر میں سنتیں ادا کرتا ہے، تو اجر و ثواب کا مستحق ہے اور اگر کوئی سنتیں ادا نہیں کرتا، تو رخصت پر عمل کرنے والا ہے۔

   سنن ترمذی میں ہے:’’وروي عن ابن عمر أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان لا يتطوع في السفر قبل الصلاة ولا بعدهاوروي عنه عن النبي صلى اللہ عليه وسلم أنه كان يتطوع في السفر‘‘ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسفر میں نماز سے پہلے اور نماز کے بعد نفل نماز ادانہیں فرماتے تھے۔اور انہی سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسفر میں نفل ادا فرماتے تھے۔

   ان دو روایتوں کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ ثم اختلف أهل العلم بعد النبي صلى اللہ عليه وسلم، فرأى بعض أصحاب النبي صلى اللہ عليه وسلم، أن يتطوع الرجل في السفر، وبه يقول أحمد، وإسحاق ولم تر طائفة من أهل العلم أن يصلى قبلها ولا بعدها، ومعنى من لم يتطوع في السفر قبول الرخصة، ومن تطوع فله في ذلك فضل كثير، وهو قول أكثر أهل العلم يختارون التطوع في السفر‘‘ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اہل علم کا اس معاملے میں اختلاف ہوا بعض صحابہ کی رائے یہ ہوئی کہ انسان سفر میں نفل ادا کرے، یہ امام احمد و اسحاق کا قول ہے اور اہل علم کا ایک گروہ یہ رائے نہیں رکھتا کہ مسافر فرض سے پہلے یا بعد نفل ادا کرے اور نفل نہ پڑھنے کا مطلب رخصت کو قبول کرنا ہے، اور جو نفل ادا کرے اس کے لیے اس میں فضلِ کثیر ہے، اور یہی اکثر اہل علم کا قول ہے کہ وہ سفر میں نوافل  کی ادائیگی کو اختیار کرتے ہیں۔( سنن الترمذی ، باب ما جاء فی التطوع فی السفر ، صفحہ 162۔163،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں مروی مزید دو  روایات:

   سنن ترمذی میں ہے:’’حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا حفص بن غياث، عن الحجاج، عن عطية، عن ابن عمر قال: صليت مع النبي صلى اللہ عليه وسلم الظهر في السفر ركعتين وبعدها ركعتين: هذا حديث حسن، وقد رواه ابن أبي ليلى عن عطية، ونافع، عن ابن عمر۔   

   عن ابن عمر، قال: صليت مع النبي صلى اللہ عليه وسلم في الحضر والسفر ،  فصليت معه في الحضر الظهر أربعا وبعدها ركعتين، وصليت معه في السفر الظهر ركعتين وبعدها ركعتين، والعصر ركعتين ولم يصل بعدها شيئا، والمغرب في الحضر والسفر سواء ثلاث ركعات، لا ينقص في حضر ولا سفر، وهي وتر النهار، وبعدها ركعتين ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں ظہر کی دو رکعتیں اور ظہر کے بعد دو رکعتیں ادا کیں ۔

   حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر و حضر میں نماز ادا کی ہے ، پس حضر میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ظہر کی چار رکعتیں اور ان کے بعد دو رکعتیں ادا کیں ، اور سفر میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ظہر کی دو رکعتیں اور ان کے بعد دو رکعتیں ادا کیں ، اور عصر کی دو رکعتیں ادا کیں، جن کے بعد مزید کوئی نماز نہ پڑھی، اور مغرب حضر و سفر میں تین رکعتیں ادا کیں، ان میں حضر  و سفر میں کوئی کمی نہیں کی، اور یہ دن کے وتر ہیں ، اور ان کے بعد دو رکعتیں ادا کیں ۔

   اس روایت کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’هذا حديث حسن، سمعت محمدا، يقول: ما روى ابن أبي ليلى حديثا أعجب إلي من هذا، ولا أروي عنه شيئا ‘‘ ترجمہ:یہی حدیث حسن ہے ، میں نے امام محمد بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو فرماتے ہوئے سنا : ابن ابی لیلی کی روایت کردہ حدیث میرے نزدیک اس حدیث سے زیادہ پسندیدہ ہے اور میں ان سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا۔( سنن الترمذی ، باب ما جاء فی التطوع فی السفر ، صفحہ 163،مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ بیروت)

تطبیق کی دوسری صورت:

   جس روایت میں یہ ذکر ہے کہ  نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سفر میں سنتیں ادا نہ فرمائیں اسے عمومی عمل پر محمول کریں گےاور جس روایت میں پڑھنے کا ذکر ہے،اسے بیانِ استحباب پر محمول کریں گے یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر میں بیانِ استحباب کے لیے سنتیں ادا فرمائی ہیں  ،لہٰذا دونوں طرح کی روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔

   صحیح بخاری میں ہے:’’ حدثنا مسدد قال حدثنا يحيى عن عيسی بن حفص بن عاصم قال حدثني أبي أنه سمع ابن عمر يقول: صحبت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فكان لا يزيد في السفر على ركعتين وأبا بكر وعمر وعثمان كذالك رضي اللہ تعالى عنهم‘‘ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبی  پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی صحبت اختیار کی ۔آپ علیہ الصلوۃ والسلام سفر میں دو رکعتوں پر زیادتی نہ فرماتے  اور حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایسا ہی کرتے۔( صحیح بخاری ، کتاب الاذان، باب من لم یتطوع فی السفر۔۔۔الخ، صفحہ 207، دار الکتب العلمیہ)

   اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں علامہ بد ر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ  مذکورہ بالا جامع ترمذی کی آخری روایت نقل کرنے کے بعد سوال قائم کرتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں  میں کیا تطبیق ہو گی؟ پھر جواباً فرماتے ہیں:’’ أما وجه التوفيق فقد قال شيخنا زين الدين، رحمه اللہ: الجواب أن النفل المطلق وصلاة الليل لم يمنعهما ابن عمر ولا غيره، فأما السنن الرواتب فيحمل حديثه المتقدم، يعني حديث الباب، على الغالب من أحواله في أنه لا يصلي الرواتب، وحديثه في هذا الباب أي: الذي رواه الترمذي، على أنه فعله في بعض الأوقات لبيان استحبابها في السفر، وإن لم يتأكد فعلها فيه كتأكده في الحضر، أو أنه كان نازلا في وقت الصلاة ولا شغل له يشتغل به عن ذلك، أو سائرا وهو على راحلته، ولفظه في الحديث المتقدم: يعني حديث الباب، هو بلفظ: كان، وهي لا تقتضي الدوام بل ولا التكرار على الصحيح، فلا تعارض بين حديثيه ‘‘ ترجمہ: بہر حال تطبیق کی صورت تو ہمارے شیخ زین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جواب یہ ہےکہ مطلقاً نفل اور صلوٰۃ اللیل کی ادائیگی سے حضرت ابن عمر یا کسی اور نے منع نہیں کیا ، بہر حال سنن رواتب تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما  کی  متقدم حدیث یعنی جو اس  باب میں ہے اسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غالب احوال پر محمول کیا جائےگا  کہ حضور  علیہ الصلوۃ والسلام سفر میں سنن رواتب ادا نہ فرماتے تھے، اور اس باب میں جو امام ترمذی کی روایت ہے اسے اس پر محمول کریں گے کہ  بعض اوقات  بیانِ استحباب کے لیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے  سفر میں سنتیں ادا فرمائیں، اگرچہ سفر میں سنتوں کی ادائیگی کا تاکد حضر میں ادائیگی کے تاکد کی طرح نہیں ، یا پھر اس پر محمول کریں گے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نماز کے لیے سواری سے اترے اور کوئی کام انہیں مشغول کرنے والا نہ تھا، اس لیے سنتیں بھی ادا فرمائیں ،یا اس پر محمول کریں گے کہ سواری پر چلتے ہوئے ہی سنتیں ادا کیں۔اور صحیح بخاری کے اس باب کی حدیث میں جو لفظ ’’کان‘‘ہے یہ دوام بلکہ صحیح قول کے مطابق تکرار کا بھی تقاضا نہیں کرتا، لہذا دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں۔(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد 07، صفحہ 210،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

   رہی  بات سوال میں مذکور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کی،تو فقہائے کرام نے  اس کا محمل حالتِ خوف کو بیان فرمایا ہے کہ جب مسافر کے لیے سنتیں ادا کرنے کے لیے رکنا ممکن نہ ہو، تو اب سنتیں معاف ہیں۔

   بدائع الصنائع میں ہے :’’وروي عن بعض الصحابة أنه قال: "لو أتيت بالسنن في السفر لأتممت الفريضة"وذلك عندنا محمول على حالة الخوف على وجه لا يمكنه المكث لأداء السنن‘‘ ترجمہ: اور جو کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اگر میں نے سفر میں سنتیں ادا کرنی ہوتیں، تو میں فرض ہی مکمل پڑھ لیتا ۔ ہمارے نزدیک یہ حالتِ خوف میں ایسی صورت پرمحمول ہو گا کہ جس صورت میں اس کے لیے سنتیں ادا کرنے کے لیے رکنا ممکن نہ ہو۔(بدائع الصنائع ،جلد1، صفحہ466، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم