Safar Ki Musafat 92 Kilometer Hone Par Dalail Aur 3 Meel Wali Hadees Ka Jawab

مسافت سفر 92کلومیٹرہونے پر دلائل اور تین میل  والی حدیث کا جواب

مجیب:محمدعرفان مدنی

مصدق:مفتی محمدہاشم خان عطاری

فتوی  نمبر: 95

تاریخ  اجراء: 08شعبان المعظم 1439ھ/25اپریل2018ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کا کہنا ہےکہ نمازقصرکرنے کے لیے 92کلومیٹرپرکوئی حدیث نہیں ہے، بلکہ احادیث میں توتین میل کاذکرآتاہے ۔چنانچہ وہ اپنے مؤقف پردرج ذیل روایات بیان کرتاہے:

   (الف)صحیح مسلم میں ہے :"عن يحيى بن يزيد الهنائي، قال: سألت أنس بن مالك، عن قصر الصلاة، فقال:كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا خرج مسيرة ثلاثة أميال، أو ثلاثة فراسخ ، شعبة الشاك ، صلى ركعتين"ترجمہ:یحییٰ بن یزیدہنائی نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نماز میں قصرکے متعلق سوال کیا، تو فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جب تین میل کی مسافت کے لیے تشریف لے جاتے یا تین  فرسخ  کی  مسافت  کے لیے (شعبہ کو شک ہوا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعات ادافرماتے۔

   (ب)سنن ابی داؤدمیں ہے:"عن منصور الكلبي، أن دحية بن خليفة خرج من قرية من دمشق مرة إلى قدر قرية عقبةمن الفسطاط، وذلك ثلاثة أميال في رمضان،ثم إنه أفطر۔۔الحدیث"ترجمہ: منصور الکلبی سے مروی ہے کہ دحیہ بن خلیفہ ایک مرتبہ دمشق کی بستی سے فسطاط کی بستی عقبہ کی مقدار کے برابر مسافت پرتشریف لے گئے ،  اور رمضان میں یہ تین میل کا سفر  تھا توانہوں نے افطارکیا۔۔الحدیث۔

   (ج)مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :"حدثنا هشيم، عن أبي هارون، عن أبي سعيد : أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان إذا سافر فرسخا قصر الصلاة"ترجمہ:ہشیم نے ہمیں ابوہارون سے،انہوں نے ابوسعیدسے روایت بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ایک فرسخ سفرفرماتے ،تونمازمیں قصرفرماتے۔

   (د)مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : "عن ابن عمر، قال:تقصر الصلاة في مسيرة ثلاثة أميال" ترجمہ:حضرت  ابن عمر رضی اللہ  تعالی عنہما سےمروی ہے، فرمایا:تین  میل  کی مسافت میں نمازمیں قصرکی جائے گی ۔

   (ہ)مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: "عن اللجلاج، قال: كنا نسافر مع عمر رضي اللہ عنه ثلاثة أميال، فيتجوز في الصلاة، ويفطر"ترجمہ:لجلاج سے مروی ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تین میل کاسفرکرتے تھے، تونمازمیں قصرکرتے تھے اور افطار کرتے تھے۔

   (و)مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: "عن البراء، أن علياخرج إلى النخیلة فصلى بها الظهر والعصر ركعتين، ثم رجع من يومه فقال: أردت أن أعلمكم سنة نبيكم " ترجمہ: حضرت براء سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نخیلہ کی طرف تشریف لے گئے تو ظہر و عصر دو رکعات ادا کیں ،پھر اسی دن واپس لوٹے، تو فرمایا: میں نے چاہا کہ تمہیں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سکھاؤں ۔

   شرعی رہنمائی فرمائیں کہ :

   (1)کیازید کامذکورہ بالااحادیث سے کیاجانے والااستدلال درست ہے؟

   (2)نیزہمارامؤقف جو92کلومیٹرکاہے ،اس پرکیادلائل ہیں ؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   (1)زیدکامذکورہ بالاروایات  سے استدلال درست نہیں کہ یہ روایات قابل احتجاج نہیں ہیں ،جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

   (الف)مسلم شریف  کی روایت کی ایک توجیہ تویہ بیان  کی  گئی ہے کہ یہ خاص  واقعہ  کا کاذکر ہے یہ واقعہ حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے طویل سفرکا واقعہ ہے اور سفرمیں قصر کہاں سے شروع کی یہ اس کابیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مدینہ شریف سے اتنے میل سفرکرلیا،تونمازمیں قصرکی ۔

   اوردوسرا اس کا جواب یہ دیاگیاکہ احتمال ہے کہ یہ روایت منسوخ ہوچکی ہو،کیونکہ اس کے برعکس مقدارکے متعلق روایات موجودہیں ۔

   علامہ ابن عبدالبررحمۃ  اللہ علیہ نے فرمایاکہ اس روایت کے راوی یحییٰ نے یہ روایت جمہورصحابہ وتابعین کے برخلاف روایت کی ہے اوراس کے حفظ  پراعتمادبھی نہیں  ہوسکتا، لہٰذا یہروایت قابل اعتبارنہیں ۔

   نیز اس روایت میں مقدارکے متعلق راوی کوشک ہے کہ تین میل فرمایا،یا تین فرسخ اور ایک فرسخ میں تین میل ہوتے ہیں، تو یوں راوی کو شک ہے کہ تین میل فرمایا یا نو میل، پس اس بنا پر تین میل کا اس سے استدلال درست نہیں۔

   چنانچہ مسلم شریف کی روایت کے متعلق علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :"وإنما يحمل هذا الحديث على أحد شيئين: أحدهما: أن يكون رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم خرج بنية السفر الطويل فلما سار ثلاثة أميال قصر، ثم عاد من سفره، فحكى أنس ما رأى. والثاني: أن يكون منسوخا"ترجمہ:اس روایت کودومیں سے ایک احتمال پرمحمول کیاجائے گا:ایک احتمال تویہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طویل سفرکی نیت سے باہرتشریف لے گئے پھرجب تین میل سفرکرلیا،توقصرفرمائی،پھرجب سفرسے واپس تشریف لائے،توحضرت  انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے  جوملاحظہ فرمایا اس  کی  حکایت  بیان فرمادی۔اور دوسرایہ کہ یہ منسوخ ہو۔(کشف المشکل من حدیث الصحیحین،جلد 03، صفحہ 316،317، مطبوعہ ریاض(

   عمدۃ القاری میں اسی روایت کے متعلق ہے: "قال أبو عمر: هذا عن يحيى بن يزيد الهنائي ۔۔۔ ويحيى شيخ بصري ليس لمثله أن يروي مثل هذا الذي خالف فيه جمهور الصحابة والتابعين، ولا هو ممن يوثق به في مثل ضبط هذا الأمر، وقد يحتمل أن يكون أراد سفرا بعيدا، ثم أراد ابتداء قصر الصلاة إذا خرج ومشى ثلاثة أميال، فيتفق حضور صلاة فيقصر"ترجمہ:ابوعمرو(علامہ ابن عبدالبر)رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:یہ روایت یحییٰ بن یزیدہنائی سے مروی ہے اوریحییٰ بصری شیخ ہیں ان جیسے کایہ حق نہیں کہ وہ ایسی روایت بیان کرے ،جوجمہورصحابہ وتابعین کے خلاف ہو اور ایسے معاملے کومحفوظ کرنے میں اس پراعتمادبھی نہیں ہوسکتا اور احتمال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سفر کا ارادہ فرمایا ہو، پھر جب تین میل سفرطے فرما لیا، تو اتفاقاً نماز ادا فرماناچاہی، تو نماز میں قصر فرمائی ۔(عمدۃ القاری،باب الصلوۃ بمنی،جلد 07، صفحہ 173،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   شرح الزرقانی علی الموطا میں اسی روایت کے متعلق ہے : "ورده القرطبي بأنه مشكوك فيه فلا يحتج به " ترجمہ: اور علامہ قرطبی نے اس کاردکیاہے کہ یہ مشکوک ہے، تو اس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔ )عمدۃ القاری،باب الصلوۃ بمنی،جلد 07، صفحہ 173،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت(

   (ب)حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت پرسندکے اعتبارسے کلام ہے۔چنانچہ میزان الاعتدال میں ہے: "منصور الكلبيس عن دحية بن خليفة ما روى عنه سوى مرثد اليزنى حديثه: فطر المسافر على ثلاثة أميال ،لم يصححه عبد الحق" ترجمہ:منصورالکلبی ، ابوداؤدشریف کاراوی ہے ،جس نے دحیہ بن خلیفہ سے روایت کی ہے ،اس سے مرثد الیزنی کے سواکسی نے روایت نہیں کی ، اس کی حدیث جس میں مسافرکے تین میل پر روزہ افطارکرنے کا ذکرہے ،اسے عبدالحق نے صحیح قرارنہیں دیا۔(میزان الاعتدال،جلد 04، صفحہ 189،مطبوعہ دارالمعرفۃ،بیروت،لبنان)

   علامہ ابن حجرعسقلانی رحمۃ  اللہ علیہ اس روایت کے راوی منصورالکلبی کومستور قرار دیتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :"منصور ابن سعيد أو ابن زيد ابن الأصبغ الكلبي المصري مستور " منصور بن سعید یا منصور بن زید  بن اصبغ کلبی مصری  مستور ہیں۔)تقریب التہذیب، صفحہ 546، مطبوعہ دارالرشید،سوریا)

    (ج)حضرت ابوسعید رضی اللہ  عنہ والی روایت کے بعض راویوں پرشدیدطعن کیا گیا ہے پس یہ روایت ضعیف ہے اور احتجاج کےقابل نہیں ۔چنانچہ علامہ ابن عبدالبر رحمۃ  اللہ علیہ (المتوفی 463 ھ) الاستذکارمیں حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت کی سندکے متعلق تحریر فرماتے  ہیں:"وأبو هارون العبدي اسمه عمارة بن جوين منكر الحديث عند جميعهم متروك لا يكتب حديثه وقد نسبه حماد بن زيد إلى الكذب قال وكان يروي بالغداة شيئا وبالعشي شيئاوقال عباس عن ابن معين قال أبو هارون العبدي كانت عنده صحيفة يقول فيها هذه صحيفة الوصي وكان عندهم لا يصدق في حديثه، وقال عبد اللہ بن أحمد بن حنبل سألت أبي عن هارون العبدي فقال ليس بشيء" ترجمہ:اورابوہارون عبدی کانام عمارہ بن جوین ہے یہ منکرالحدیث ہے،سب کے نزدیک متروک ہے ،جس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی اوراسے حمادبن زیدنے کذب کی طرف منسوب کیاہے، فرمایا :اور وہ صبح کو کچھ روایت کرتا تھا اور شام کو کچھ اورعباس نے ابن معین سے روایت کیاہے کہ انہوں نے کہا:ابوہارون عبدی کے پاس ایک صحیفہ تھا، جس کے متعلق وہ کہتا تھا کہ یہ وصی کاصحیفہ ہے اورمحدثین کے نزدیک اس کی حدیث کے متعلق اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔اورعبداللہ بن احمدبن حنبل نے کہا:میں نے اپنے باپ(امام احمدبن حنبل رحمۃ  اللہ علیہ)سے ہارون عبدی کے متعلق سوال کیا،توفرمایا:وہ کچھ نہیں۔(الاستذکار، باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 239،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت۔)

   (د)حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماسے مروی وہ قول جو سوال میں ذکر کیا گیا ہے ، اس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، کیونکہ ان سے مختلف مقادیرکے متعلق کئی اقوال مروی ہیں جو آپس میں متعارض ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما والی روایت کے جواب میں بعض روایات ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن عبدالبر رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں :" وما رواه محمد بن زيد بن خليد عن ابن عمر أنه كان يقصر الصلاة في مسيرة ثلاثة أميال ۔۔۔ فكيف نقبلها عن ا بن عمر مع ما ذكرنا من رواية سالم ونافع عنه بخلافها من حديث أهل المدينة "ترجمہ:اورجومحمدبن زید بن خلیدنے حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیاہے کہ وہ تین میل کی مسافت پرنمازمیں قصرفرماتے تھے ،توہم اسے کیسے قبول کریں، جبکہ جوروایات ہم نے سالم اورنافع کی روایت سےاس کے برخلاف ان کی ذکرکی ہیں، وہ اہل مدینہ کی حدیث میں سے ہیں ۔)الاستذکار،باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 234،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت(

   حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی مختلف مقدار والے  اقوال  ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن حجرعسقلانی رحمۃ  اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :" وهذه أقوال متغايرة جدا" ترجمہ:اوریہ آپس  میں بہت زیادہ متعارض اقوال ہیں ۔ )فتح الباری،باب فی کم یقصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 567،مطبوعہ مصر(

   (ہ)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایات راویوں کے مجہول وضعیف ہونے کی بناء پرقابل حجت نہیں۔ نیزاس میں یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طویل سفر کا ارادہ فرمایا اور جب قصرکرنے لگے ،تواس وقت آپ نے تین میل مسافت طے کرلی تھی، تو یہ حقیقت میں تین میل کی وجہ سے قصرنہیں فرمائی، بلکہ طویل سفرکی بنا پرقصرفرمائی ہاں قصرکی ابتداتین میل کی مسافت پرفرمائی۔

   چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  کی روایت  کے متعلق  علامہ  ابن عبدالبر رحمۃ  اللہ  علیہ تحریرفرماتے ہیں : "فإن اللجلاج وأبا الورد مجهولان ولا يعرفان في الصحابة ولا في التابعين واللجلاج قد ذكر عن الصحابة ولا يعرف فيهم ولا في التابعين وليس في نقله حجة وأبو الورد أشر جهالة وأضعف نقلا ولو صح احتمل ما وصفنا قبل واللہ أعلم"ترجمہ:(حدیث عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے راوی)لجلاج اور ابوالورد مجہول ہیں نہ تو ان کا صحابی ہونا معلوم ہے اور نہ تابعی اور لجلاج نے صحابہ سے روایت بیان کی ہے اور اس کا نہ صحابی ہونا معلوم اور نہ تابعی اور اس کی بیان کردہ روایت میں حجت نہیں، اور ابوالورد تو بہت  زیادہ مجہول اور روایت بیان کرنے میں بہت زیادہ ضعیف ہے اور اگریہ روایت صحیح بھی ہو،تواس میں وہ احتمال ہے جوہم نے پہلے بیان کیا(یعنی طویل سفروالا)۔(الاستذکار،باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 241،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت(

    (و)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت کی سندبھی ضعیف ہونے کی بنا پرقابل حجت نہیں ،نیزاس سفرکے متعلق معروف یہ ہے کہ یہ سفرآپ کا طویل تھا، تو قصر اس وجہ سے فرمائی کہ سفرطویل تھا، ہاں ابتداتین میل سے فرمائی ۔

    چنانچہ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے متعلق علامہ ابن عبدالبررحمۃ  اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : "وهذا إسناد فيه من الضعف والوهن ما لا (خفاء) به وجويبر متروك الحديث لا يحتج به لإجماعهم على ضعفه وخروج علي رضي اللہ عنه إلى النخيلة معروف أنه كان مسافرا سفرا طويلا"ترجمہ: اور اس اسناد میں وہ ضعف اور کمزوری ہے جومخفی نہیں اورجویبرمتروک الحدیث ہے، اس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، کیونکہ اس کے ضعف پرسب کااتفاق ہے اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانخیلہ کی طرف جانے کے متعلق معروف ہے کہ

   اس میں وہ طویل سفرکے مسافرتھے ۔)الاستذکار،باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 241،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت(

    (2)ہمارے مؤقف پردلیل وہ روایت ہے جسے امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ نے بخاری شریف میں اس عنوان کے تحت روایت کیاہے"باب في كم يقصر الصلاة "یعنی باب اس کے متعلق کہ کتنی مسافت کے سفرپرقصرہے۔ روایت یہ ہے :" عن ابن عمر رضي اللہ عنهما: أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: لا تسافر المرأة ثلاثة أيام إلا مع ذي محرم "ترجمہ:حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: عورت تین دن کاسفربغیرمحرم کے نہیں کرسکتی ۔)صحیح البخاری،ابواب تقصیرالصلوۃ،باب فی کم یقصرالصلوۃ ، صفحہ 205، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت (

   اس سے امام بخاری نے اور احناف نے یہی ثابت کیاہے کہ شرعی سفرجس پر احکام مرتب ہوتے ہیں وہ تین دن رات کاسفرہے ۔

   اس بات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ احادیث میں مسافرکوتین دن رات تک موزوں پرمسح کی اجازت دی گئی ہے، جس سے ثابت ہوتاہے کہ شرعی احکام جس سفرپرمرتب ہوتے ہیں، وہ تین دن رات کاسفرہے،چنانچہ مسلم شریف میں ہے:"عن شريح بن هانئ، قال: أتيت عائشة أسألها عن المسح على الخفين، فقالت: عليك بابن أبي طالب، فسله فإنه كان يسافر مع رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فسألناه فقال: جعل رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم" ترجمہ: شریح بن ہانی سے مروی ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکی بارگاہ میں موزوں پرمسح کے متعلق سوال کرنے کے لیے حاضرہوا، توانہوں نے فرمایا:حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے پاس جاکرپوچھو،کیونکہ وہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفرکیاکرتے تھے ، پس ہم نے ان سے پوچھا،توانہوں نے فرمایا:رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسافرکے لیے تین دن اورتین راتیں مقررفرمائی ہیں اورمقیم کے لیے ایک دن اورایک رات۔ (صحیح البخاری،ابواب تقصیرالصلوۃ،باب فی کم یقصرالصلوۃ ، صفحہ 205، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت (

   عمدۃ القاری میں علامہ عینی رحمۃ  اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :"ذكر المسافة التي تقصر فيها الصلاة: اختلف العلماء فيها، فقال أبو حنيفة وأصحابه والكوفيون: المسافة التي تقصر فيها الصلاة ثلاثة أيام ولياليهن بسير الإبل ومشي الأقدام ۔۔۔وإلى ثلاثة أيام ذهب عثمان بن عفان وابن مسعود وسويد بن غفلة والشعبي والنخعي والثوري وابن حيي وأبو قلابة وشريك بن عبد اللہ وسعيد بن جبير ومحمد بن سيرين، وهو رواية عن عبد اللہ بن عمر"ترجمہ:اس مسافت کا ذکر جس میں نماز میں قصرکی جائے گی ،اس کے متعلق علماء کااختلاف ہے ،پس ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اورکوفیوں نے کہا: جس مسافت میں نمازمیں قصرکی جائے گی وہ تین دن رات کی مسافت ہے اونٹ اورپیدل کی رفتار کے ساتھ ،اورتین دن کاہی موقف ہے، حضرت عثمان بن عفان،حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرات سویدبن غفلہ،شعبی ،نخعی،ثوری،ابن حیی،ابوقلابہ ،شریک بن عبداللہ ،سعیدبن جبیر اور محمدبن سیرین کااوریہی ایک روایت ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھماسے۔)صحیح البخاری،ابواب تقصیرالصلوۃ،باب فی کم یقصرالصلوۃ ، صفحہ 205، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت (

   حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کی جس روایت کی طرف علامہ عینی رحمۃ  اللہ علیہ نے اشارہ کیا وہ یہ ہے، جسے امام محمد رحمۃ  اللہ علیہ نے آثار میں روایت فرمایا:"عن علي ابن ربيعة الوالبي  قال: سألت عبد اللہ ابن عمر رضي اللہ عنهما إلى كم تقصر الصلاة؟ فقال: " أتعرف السويداء؟ قال: قلت لا، ولكني قد سمعت بها، قال: هي ثلاث ليال قواصد، فإذا خرجنا إليها قصرنا الصلاة " قال محمد: وبه نأخذ، وهو قول أبي حنيفة رضي اللہ عنه"ترجمہ:علی بن ربیعہ الوالبی سے مروی ہے کہ میں نےحضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالی عنہما سے سوال کیاکہ کتنی مسافت تک نمازمیں قصرکی جائے گی ؟توآپ رضی اللہ تعالیٰ  عنہ نے فرمایا: کیا تو سویداء کو جانتاہے؟ کہتے ہیں ، میں نے کہا: نہیں لیکن میں نے اس کے متعلق سن رکھاہے ، فرمایا:وہ تین رات کی مسافت ہے ، تو جب ہم وہاں جاتے تو نماز میں قصر کرتے۔

   امام محمدرحمۃ  اللہ علیہ نے فرمایا:اوراسی کوہم اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ رحمۃ  اللہ علیہ کاقول ہے ۔ )صحیح البخاری،ابواب تقصیرالصلوۃ،باب فی کم یقصرالصلوۃ ، صفحہ 205، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

   حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماسے مروی تمام اقوال سے سب سے محتاط قول یہی ہے اور اسی پر احناف کا عمل ہے اور علامہ ابن عبدالبر(المتوفی 463ھ)الاستذکارمیں تحریر فرماتے  ہیں:"ومن احتاط فلم يقصر إلا في مسيرة ثلاثة أيام كاملة"ترجمہ:اورجس نے احتیاط سے کام لیااس نے تین دن کامل کی مسافت میں ہی نمازمیں قصرکی ۔(صحیح البخاری،ابواب تقصیرالصلوۃ،باب فی کم یقصرالصلوۃ ، صفحہ 205، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت(

   اورتین دن رات کی مسافت کی مقدارکلومیٹرکے حوالے سے 92کلومیڑ بنتی ہے۔ جدالممتار میں امام اہلسنت رحمۃ  اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : "والمعتاد المعھود فی بلادنا ان کل مرحلۃ۱۲کوس، وقد جربت مرارا کثیرۃ بمواضع شھیرۃ ان المیل الرائج فی بلادنا خمسۃ اثمان کوس المعتبر ھاھنا فاذا ضربت الاکواس فی ۸ و قسم الحاصل علی۵کانت امیالافاذن امیال مرحلۃ واحدۃ ١٩، ٥/١ وامیال مسیرۃ ثلاثہ ایام۵۷، ٥/٣ اعنی ۶ء ۵۷" ترجمہ:ہمارے بلادمیں معتادومعہودیہ ہے کہ ہرمنزل بارہ کوس کی ہوتی ہے ، میں نے بار باربکثرت مشہورجگہوں میں آزمایاہے کہ اس وقت ہمارے بلادمیں جومیل رائج ہے وہ ۸/۵کوس ہے،  جب کوسوں کو۸میں ضرب دیں اورحاصل ضرب کو۵پرتقسیم کریں،توحاصل قسمت میل ہوگا،اب ایک منزل ١٩، ٥/١  میل کی ہوئی اورتین دن کی مسافت ۵۷،۵/۳میل یعنی ۵۷-۶ میل۔)صحیح البخاری،ابواب تقصیرالصلوۃ،باب فی کم یقصرالصلوۃ ، صفحہ 205، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت(

   نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری میں حضرت علامہ مولانامفتی محمدشریف الحق امجدی رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں: "احناف کاصحیح مذہب یہ ہے کہ تین منزل کی دوری پرجانے کاقصدہو،تووہ مسافر ہے مگراب منزلیں ختم ہوگئیں ، ہوائی جہازپرسفرہونے لگا، اس لیے اس زمانے میں میلوں سے اس کی تعیین ضروری ہوئی ۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہ نے مختلف منازل کے فاصلوں کو سامنے رکھ کرحساب لگایا،تو اوسطاتین منزل کی مسافت ستاون میل ہوئی جوموجودہ اعشاریہ پیمانے سے بانوے کلومیٹرہے۔")صحیح البخاری،ابواب تقصیرالصلوۃ،باب فی کم یقصرالصلوۃ ، صفحہ 205، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم