Sharai Safar Ke Doran Zimni Qayam Musafir Hone Se Maane Nahi

سفر شرعی کے دوران  ضمنی قیام(دوست سے ملاقات کرنا) مسافر ہونے سے مانع نہیں

مجیب:مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:125

تاریخ اجراء:20جمادی الاول1444ھ/15دسمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلےکے بارے میں       کہ  ایک شخص   کسی  شہر میں امامت کرتا ہے جو کہ اس کا وطن ِ اصلی نہیں ہے، اس نے اس شہر  سے کسی دوسرے شہر  شادی میں شرکت کے لئے جانا ہےاور اسی دن واپس بھی آنا   ہےاور ان دونوں شہروں کے درمیان  تقریبا ً100 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ اس کا شادی  سے واپسی کے بعداپنے امامت والے شہر میں تقریباً ایک ہفتہ رہنے کا ارادہ ہے، پھر ہفتے  بعد اس نے اپنے وطن اصلی جانا ہے۔  اگر مذکورہ شخص شرعی  مسافرہونے سے بچنے کے لیے یہ حیلہ اپنائے کہ شادی پر جاتے ہوئے  شہر  سےتقریباً 20، 30 کلومیٹر کی مسافت پر ایک دوست کو بلا لے اور چند منٹ اس سے ملاقات  کر کے پھر دوسرےشہر چلا جائے،تاکہ مسلسل 92 کلومیٹر کا سفر نہ ہونے کی وجہ سے وہ مسافرشرعی  نہ بنے اور اسےشادی سے واپسی کے بعد نمازوں میں قصر نہ کرنی پڑے۔  تو کیا اس حیلے کی وجہ سے شرعی سفر کا اتصال ٹوٹ جائے گا یانہیں اور وہ دوسرے شہر   آتے، جاتے اور وہاں قصر نماز ادا کرے گا یا مکمل نماز ادا کرے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں بیان کردہ حیلہ اپنانے کی وجہ سےمذکورہ شخص کے   شرعی سفر  کا اتصال نہیں  ٹوٹے گا  اوروہ شادی کے لیے  دوسرے شہر  آتے، جاتے اور وہاں  پہنچنے پر قصر نماز ادا کرے گا،نیز شادی کے بعد جب سفر شرعی کرکے امامت والے شہر میں پہنچے گا،تووہاں 15 دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہونے کی وجہ سے ان ایام میں بھی نماز میں قصر کرےگا ۔

مسئلہ کی تفصیل:

    تفصیل اس میں یہ ہے کہ قوانینِ شرعیہ کے مطابق شرعاً مسافر  وہ ہوتا ہے،جو شخص تین دن  کی راہ(  تقریباً 92 کلومیٹر )  کے ارادے   سے  اپنے شہر یا گاؤں  کی آبادی  سے نکل جائے،  پھر اگر اس کا  وہاں   پندرہ  دن ٹھہرنے کا قصد نہ ہو، تو   وہاں بھی  مسافر ہی رہے گا اورجب ایک دفعہ   شرعی طور پر کوئی مسافر ہو جائے، تو اس پر مسافر ہونے کا اطلاق  اس وقت تک رہتا ہے ، جب تک وہ  وطن اصلی میں  نہ آ جائے یا کسی  موضعِ اقامت میں پندرہ یا اس سے زائد دن رہنے کی نیت نہ کر لے۔ دریافت کردہ صورت میں جبکہ اس شخص کا اصل مقصود دوسرے شہر(جو کہ مسافت شرعی  پر واقع ہے) شادی  میں  جانا ہے  اور  راستے میں  صرف بطور حیلہ دوست سے  ملاقات کرنے کے لئے چند منٹ کے لئے ضمنی طور پر ٹھہرنا ہے، اس کے علاوہ وہاں کوئی کام نہیں، تو اس سے سفر شرعی کا اتصال نہیں ٹوٹے گا،  کیونکہ سفر شرعی کے دوران  ضمنی طور پر قیام  کرنا مسافر ہونے سے مانع نہیں ہوتا ۔

   امام برہان الدین  ابو الحسن علی بن ابو بکر  المرغینانی رحمۃ اللہ علیہ  (المتوفی: 593ھ) " ہدایہ شریف" میں فرماتے ہیں :ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثروإن نوى أقل من ذلك قصر، لأنه لا بد من اعتباره مدة، لأن السفر يجامعه اللبث فقدرناها بمدة الطهرترجمہ (مسافر ہونے کے بعد) مسافر ہونے کا حکم اس وقت تک رہتا ہے جب تک  وہ کسی  شہر یا گاؤں میں  پندرہ یا اس سے زیادہ دن ٹھہرنے کی  نیت نہ کر لے  اور اس سے کم دن کسی مقام پر ٹھہرنے کی نیت کی، تو قصرکرے گا،  کیونکہ  مسافر ہونے یا نہ ہونے کے لئے مدت کا اعتبار ضروری ہے   کہ سفر  تھوڑے بہت ٹھہرنے پر مشتمل ہوتا ہی ہے،  توا سی  لئے ہم نے (مسافر نہ ہونے کے لئے) مدتِ طہر کا  اعتبار کیا ہے۔

   اس کے تحت علامہ بد ر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ(المتوفی:855ھ) فرماتے ہیں : أن المسافر ، ربما يلبث في بعض المواضع لمصلحة له كانتظار الرفقة أو شراء السلعة فلا يعتبر ذلك، فلا بد من أن يقدر اللبث مدةترجمہ:  مسافر عموماً سفر کے دوران  بعض مقامات پر کسی مصلحت وضرورت کی بنا پر  ٹھہرتا ہی ہے ،تو اس  تھوڑے بہت ٹھہرنے کا  اعتبار نہیں ہوتا،جیسا کہ دوستوں  کے انتظار  یا کسی سامان کی خریداری کے لئے رکنا وغیرہ  ،تو مسافر نہ ہونے کے لئے  بقدرِ مدت ٹھہرنا ضروری ہے۔)البنایہ شرح الھدایہ،جلد3،صفحہ256، مطبوعہ ملتان(

   جد الممتار میں ہے:”فأما إذا لم يجتمع مدة سفر أو اجتمعت ولم يكن من قصده أول الخروج إلا بلد دون مدة سفر، ثم حدث القصد إلى آخر فالحكم واضح ایضاً (وهو عدم القصر) وكذلك إذا خرج ناويا مدة سفر وھوالمقصود الاصلی، وله بعض حاجات في مواضع واقعة في البين، فالحكم ظاهر ایضاً وهو القصر، لأن العبرة بأصل المقصود وإنما الاشتباه فيما إذا خرج بمقاصد عديدة كلها مقصود بالذات، وفي أقصاها ما هو على مسيرة سفر، وخرج أولا متوجها إلى ما هو دونها، ثم توجه إلى آخر، ثم إلى الأقصى، فهل يعتبر أن من قصده حين الخروج الذهاب إلى ما هو على مسيرة سفر، وإن لم يكن حين خرج متوجها إليه وقاصدا له في الحال، بل قاصدا غيره؟ أم يلاحظ ما هو مقصوده في الحال فيتم، وظاهر إطلاق "البزازية" و"الفتح" هو الإتمامترجمہ:جب مسافت سفر نہ بنتی ہو یا بنتی ہو مگر اپنے علاقے سے نکلتے وقت مسافت سفر سے کم پر واقع شہر کا ارادہ ہو بعد میں دوسرے شہر (جو کہ مسافت سفر پر واقع ہو) وہاں جانے کا ارادہ بنے، تو ایسی صورت میں بھی حکم واضح ہے یعنی قصر نہ ہونا۔۔۔ایسے ہی اگر مدت سفر کی نیت سے نکلا  جوکہ مقصود اصلی  ہےمگر درمیان میں کچھ کام کرنے ہیں تب بھی حکم واضح ہے کہ قصر نماز پڑھنی ہے، کیونکہ اعتبار اصل مقصود کا ہے،اشتباہ صرف اس صورت میں ہے کہ متعدد مقاصد جو مقصود بالذات ہیں،ان کے ارادے سے گھر سے نکلا اور آخری مقصد مدت سفر پر واقع ہے اور پہلے مدت سفر سے کم پر گیا پھر دوسرے مقصد کی طرف متوجہ ہوا ،تو کیا اس کا اعتبار ہوگا کہ نکلتے وقت اس کا ارادہ اس جگہ کا بھی تھا جو مدت سفر پر واقع ہے ،اگرچہ نکلتے وقت وہاں نہیں جارہا تھا اور فی الحال وہاں جانے کا ارادہ نہ تھا، بلکہ دوسری جگہ کا ارادہ تھا یا فی الحال جو مقصود ہے وہاں کا لحاظ کرتے ہوئے پوری نماز کا حکم دیں گے ؟ بزازیہ اور فتح القدیر کے اطلاق سے ظاہر پوری نماز پڑھنا ہے۔)جد الممتار، جلد03،صفحہ 575، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی(

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اگراپنے مقام سے ساڑھے ستاون (۲/۱. ۵۷)میل کے فاصلے پر علی الاتصال جانا ہوکہ وہیں جانا مقصود ہے ، بیچ میں جانا مقصود نہیں اوروہاں پندرہ دن کامل ٹھہرنے کاقصد نہ ہو،توقصرکریں گے ورنہ پوری پڑھیں گے،ہاں یہ جوبھیجا گیا اگراس وقت حالت سفرمیں ہے ، مقیم نہیں توکم وبیش جتنی دوربھی بھیجاجائےگا مسافر ہی رہے گا،جب تک پندرہ کامل ٹھہرنے کی نیت نہ کرےیااپنے وطن نہ پہنچے۔)فتاوی رضویہ، جلد8،صفحہ270، مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن، لاہور(

   ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:آدمی اگر کسی مقام اقامت سے خاص ایسی جگہ کے قصد پر چلے جو  وہاں سے تین منزل ہو،تو اس کے مسافر ہونے میں کلام نہیں ،اگر چہ  راہ میں ضمنی طور پر اور موضع میں بھی وہ ایک رو ز ٹھہرنے کی نیت رکھے۔‘‘)فتاوی فقیہ  ملت ، جلد1،  صفحہ 222،  مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور(

   فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے:” زید کاشی پور کا باشندہ ہے  اور بریلی شریف میں امامت کرتا ہے،  جب اس کا پندرہ دن سے پہلے وطن واپسی کا ارادہ ہوتا ہے،  تو وہ حکم قصر سے بچنے کے لئے  یہ حیلہ کرتا ہے  کہ وطن سے روانگی کے وقت ارادہ کرتا ہے  کہ ردرپور رکوں گا  ،پھر بریلی سفر کروں گا رودر پور اتر کر وہ کسی متعلق سے ملاقات کرتا ہے ۔ تقریبا ایک گھنٹہ وہاں ٹھہرتا ہے، پھر بریلی کے لئے روانہ ہوتا ہے، رودر پور مسافت سفر نہیں ہے۔در حقیقت  زید کو مقام مذکور میں کوئی کام نہیں ہے صرف حیلہ کے طور پر یہ کیا جاتا ہے کیا اس کا یہ حیلہ معتبر ہے اور وہ بریلی آنے پر مسافر  قرار نہیں پائے گا؟ معلوم رہے کہ رودرپور سے بریلی تک مسافت سفر نہیں۔الجواب:”صور ت  مذکورہ  میں  زید کا حیلہ معتبر  نہیں  راستہ میں اور بریلی  شریف  پہنچنے  پر وہ مسافر  ہی ہو گا  اس لئے کہ رودر پور  ٹھہرنے کی نیت اس کی ضمنی طور پر ہے اصل  ارادہ اس کا بریلی  ہی جانے کا ہے  اور ضمناً کہیں ٹھہرنے کی نیت سے سفر منقطع نہیں ہو گا ۔‘‘( فتاوی فقیہ  ملت ، جلد1،  صفحہ 222،  مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم