مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0248
تاریخ اجراء: 19جمادی الاولی
1445ھ/04 دسمبر 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین
اس بارے میں کہ آج کل بعض مساجد میں یہ دیکھا گیا
ہے کہ صفوں کے کناروں پر نمازیوں کے
گزرنے کے لیے لوہے کی لمبی گِرِل لگاکر یا ٹیپ وغیرہ سے لمبی
لکیر کھینچ کر ایک راستہ بنادیا جاتا ہے ،تاکہ ا ن کو
مسبوق نمازیوں کا انتظار نہ کرنا پڑے اور وہ بہ آسانی وہاں سے گزرکر جاسکیں ، یہ عمومی
طور پر اگلی ایک دو صفوں کو چھوڑ کر کیا جاتا ہے یعنی
اگلی ایک دو صفیں تو مکمل ہوتی ہیں ،اس کے بعد سے
کبھی تو دونوں کناروں پر اور بعض جگہ صرف
دائیں یا بائیں
جانب ایسا کیا جاتا ہے،لہٰذا وہاں دورانِ جماعت صف میں کوئی
کھڑا نہیں ہوتا،قریباً ایک دو آدمیوں کی جگہ
چھوڑ کر اگلی صف شروع کردی جاتی ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسا کرنا شرعاً
درست ہے یا نہیں؟اور اگر درست نہیں ہے، تو جہاں یہ چیزیں
لگادی گئی ہیں ،وہاں کیا کیا جائے؟برائے کرم دلائل
کی روشنی میں اس کا تشفی بخش جواب عطا فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نماز
کی صفوں کی درستی ،
نمازیوں کا خوب مِل کر کھڑا ہونا اور ”اتمام صف“ یعنی صفوں کو اس طرح مکمل کرنا کہ
کسی بھی صف میں دونوں کناروں یا درمیان سے
جگہ خالی نہ چھوڑی جائے، یہ تمام چیزیں جماعت کے
واجبات میں سے ہیں ،جن پر
احادیث مبارکہ میں بہت
تاکید فرمائی گئی ہےاور اس پر عمل نہ کرنے والوں کے لیےسخت وعید بیان کی گئی
ہے،لہٰذا جب تک اگلی صفیں دائیں بائیں دونوں کناروں
تک پُرنہ ہوجائیں ،اس وقت تک پیچھے دوسری صف بنانا ،جائز
نہیں ،کیونکہ یہ اتمامِ صف کے
حکم کے خلاف ہے، جو ناجائز و گناہ ہے،لہٰذا پوچھی گئی صورت
میں نمازیوں کے گزرنے کے لیے صف کے کنارے پر لوہے کی گرل
یا ٹیپ وغیرہ کے ذریعے راستہ بنادینا جائز
نہیں، اس گرل یا ٹیپ کو ہٹاکر صفوں کومکمل کرنا ضروری ہے اور جنہوں نے یہ
چیزیں لگائیں ان پر توبہ بھی لازم ہے ۔
صفوں
کو درست اور مکمل کرنےکے حکم اور نہ کرنے
کی وعیدات کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ :
صحيح
البخاری میں ہے :”قال النبي صلى اللہ عليه وسلم: لتسون صفوفكم،
أو ليخالفن اللہ بين وجوهكم“ترجمہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا :تم لوگ ضرور یا تو صفوں کو برابر کرو گے یا اللہ
تمہارے درمیان مخالفت ڈال دے گا ۔(صحیح البخاری
،ج01،ص 145، دار طوق النجاۃ)
مسند
احمد میں ہے :” عن عبد اللہ بن عمر، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال:
أقيموا الصفوف ، فإنما تصفون بصفوف الملائكة وحاذوا بين المناكب، وسدوا الخلل،
ولينوا في أيدي إخوانكم، ولا تذروا فرجات للشيطان
، ومن وصل صفا، وصله اللہ تبارك وتعالى، ومن قطع صفا قطعه اللہ تبارك
وتعالى“ترجمہ:حضرت
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول
اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :صفوں کوسیدھا کرو ،
کیونکہ تم ملائکہ کی صفوں کی طرح صفیں بناتے ہو اور اپنے
کندھوں کو برابر کرو اور صفوں کی
خالی جگہوں کو پورا کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں نرم ہوجاؤ
اور شیطان کے لیے خالی جگہیں نہ چھوڑو اور جس نے صف کو ملایا اللہ تبارک و
تعالیٰ اس کو ملائے گا اور جس
نے صف کو قطع کیا اللہ تبارک و تعالی اس کو قطع فرمائے گا ۔(مسند احمد ،ج10،ص 19،مؤسسۃ
الرسالہ)
سنن
ابو داؤد میں ہے :”عن أنس أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال:
أتموا الصف المقدم، ثم الذي يليه، فما كان من نقص فليكن في الصف المؤخر“ترجمہ:حضرت
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے
ارشاد فرمایا:پہلی صف کو مکمل کرو ،پھر اس کے بعد والی، تو جو
کچھ کمی ہو وہ آخر ی صف میں ہونی چاہیے
۔(سنن
ابي داؤد،ج02،ص 11،دار الرسالۃ العالمیہ)
معجم
کبیر میں ہے :” عن ابن عباس، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه
وسلم: من نظر إلى فرجة في صف فليسدها بنفسه، فإن لم يفعل فمر مار فليتخط على
رقبته، فإنه لا حرمة له“ترجمہ:حضرت سیدنا ابن عباس رضی
اللہ عنہما سے روایت ہے،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت
کرتے ہیں کہ جس نے صف میں
موجود خلا کو دیکھا، تو اس کو چاہیے کہ وہ خود اس کو پورا کرے ،تو اگر
اس نے ایسا نہ کیا اور کوئی گزرنے والا گزرے تو اس کو چاہیے کہ اس کی گردن
پھلانگ کر گزرے کہ اس کے لیے
کوئی حرمت نہیں ۔(المعجم الکبیر للطبرانی،ج11،ص
104،قاھرہ)
صفوں
کو مکمل کرنے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ
پیدا کرنے کے متعلق ،شارحین
حدیث کی عبارات:
صحیح
بخاری کی حدیث کے تحت المنتقیٰ فی شرح المؤطا
میں ہے :”فأما تسويتها فهو إتمامها فيجب أن يكمل الأول فالأول فإن
كان نقص ففي المؤخر“ترجمہ:تو صفوں کے تسویہ سے مراد ان کو مکمل کرنا ہے ،لہٰذا
واجب ہے کہ بالترتیب ایک کے بعد ایک صف کو مکمل کیا جائے اور اگر
کوئی کمی باقی رہے، تو
وہ آخری صف میں ہونی چاہیے ۔ (المنتقٰی
فی شرح المؤطا ،ج01،ص 279،مطبعۃ السعادہ)
عمدۃ
القاری میں ہے :”فإن قلت: ما معنى تسوية الصفوف؟ قلت: اعتدال
القائمين بها على سمت واحد، ويراد بها أيضا سد الخلل الذي في الصف“ترجمہ:تو
اگر تم یہ سوال کرو کہ صفوں کے تسویہ سے کیا مراد ہے ؟تو
میں کہوں گا کہ صفوں میں کھڑے ہونے والوں کا ایک ہی سمت
میں معتدل ہونا اور اس سے اس خلل کو پورا کرنا بھی مراد لیا
جاتا ہے، جو صفوں میں ہوتا ہے
۔(عمدۃ
القاری،ج05،ص 253،دار احیاء التراث العربی)
مرقاة
میں ہے :” (ومن وصل صفا) بالحضور فيه وسد الخلل منه (وصله اللہ) أي:
برحمته (ومن قطعه) أي: بالغيبة، أو بعدم السد، أو بوضع شيء مانع (قطعه اللہ)
أي: من رحمته الشاملة وعنايته الكاملة، وفيه تهديد شديد ووعيد بليغ، ولذا عده ابن
حجر من الكبائر في كتابه الزواجر“ترجمہ:اور جس نےجماعت میں حاضر ہوکر اور
صف کے خلل کو دور کرکے صف کو ملایا ،تو اللہ اس کو اپنی رحمت سے ملادے
گا اور جس نے جماعت میں حاضر نہ ہوکر یا خلا کو مکمل نہ کرکے
یا تکمیلِ صف سے مانع
کوئی چیز رکھ کر صف کو کاٹا، تو اللہ اس کو اپنی رحمت شاملہ و عنایت
کاملہ سے کاٹ دے گا اور اس میں سخت
تہدید و شدید وعید ہے ،یہی وجہ ہے کہ قطع صف کو
حافظ ابن حجر ہیتمی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب الزواجر
میں کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح،ج03،ص 854،دار الفکر )
سنن
ابو داؤد کی حدیث کے تحت شرح عینی میں ہے:”والقصد من ذلك: أن لا يخلى
موضع من الصف الأول مهما أمكن، وكذلك من الثاني والثالث وهلم جرا إلى أن ينتهي
وتتكمل الصفوف “ترجمہ:
اور اس سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو پہلی صف میں
کوئی جگہ خالی نہ ہو اور اسی طرح دوسری اور
تیسری صف کا معاملہ ہے،یہاں
تک کہ صف کی انتہاء ہوجائے اور تمام صفیں مکمل ہوجائیں ۔(شرح ابی داؤد للعینی ،ج03،ص 220، مطبوعہ
ریاض )
فقہائے
کرام کی عبارات:
تكميلِ
صف كے متعلق بحر الرائق اوردرر الحکام میں ہے :”وينبغي للقوم إذا قاموا إلى
الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف وينبغي أن يكملوا ما
يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه وهلم جرا وإن وجد في الصف فرجة سدها“ترجمہ:اور
قوم کے لیے مناسب ہے کہ جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوں ،تو وہ خوب
آپس میں مل کر کھڑے ہوں اور
خالی جگہوں کو مکمل کریں
اور صفوں میں اپنے کندھوں کو
آپس میں ملالیں اور
یہ بھی مناسب ہے کہ پہلے وہ لوگ امام سے متصل والی صف مکمل
کریں، پھر اس کے بعد والی اسی طرح آخر تک کریں اور
جب کوئی شخص صف میں خالی جگہ پائے، تو اس کو مکمل کرے۔ (البحر الرائق ،ج01،ص
375،دار الکتاب الاسلامی)(درر الحکام شرح غرر الاحکام،ج01،ص 90،دار
احیاء الکتب العربیہ)
فتاویٰ
رضویہ میں ہے :”دربارہ صفوف شرعاً تین باتیں بتاکیداکیدماموربہ
ہیں اور تینوں آج کل معاذاللہ کالمتروک ہورہی ہیں،یہی
باعث ہے کہ مسلمانوں میں نااتفاقی پھیلی ہوئی
ہے۔اول: تسویہ کہ صف برابر ہو،خم نہ ہو، کج نہ ہو، مقتدی
آگے پیچھے نہ ہوں، سب کی گردنیں شانے ٹخنے آپس میں محاذی
ایک خط مستقیم پرواقع ہوں، جو اس خط پرکہ ہمارے سینوں سے نکل کر
قبلہ معظمہ پر گزراہے عمود ہو، دوم : اتمام کہ جب تک ایک صف پوری
نہ ہو دوسری نہ کریں اس کا شرع مطہرہ کو وہ اہتمام ہے کہ اگرکوئی
صف ناقص چھوڑے، مثلاً: ایک آدمی کی جگہ اس میں کہیں
باقی تھی اسے بغیر پوراکیے پیچھے اور صفیں
باندھ لیں، بعد کو ایک شخص آیا ،اس نے اگلی صف میں
نقصان پایا، تو اسے حکم ہے کہ ان صفوں کو چیرتاہوا جاکروہاں کھڑا ہو
اور اس نقصان کو پوراکرے کہ انہوں نے مخالفت حکم شرع کرکے خود اپنی حرمت
ساقط کی،سوم: تراصّ یعنی خوب مل کر کھڑاہونا کہ شانہ سے
شانہ چھلے،یہ بھی اسی اتمام صفوف کے متممات سے
اور تینوں امرشرعاً واجب ہیں۔“ (ملتقطا ،فتاویٰ
رضویہ،ج07،ص 219 تا 223 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
اسی
میں ہے :”حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تکمیل صف کا
نہایت اہتمام فرماتے اور اس میں کسی جگہ فرجہ چھوڑنے کو سخت
ناپسند فرماتے ۔۔۔وصل صفوف اور ان کی رخنہ بندی اہم
ضروریات سے ہے اور ترک فرجہ ممنوع و ناجائز ۔۔۔کسی
صف میں فرجہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے ،جب تک اگلی صف
پوری نہ کرلیں صف دیگر ہرگز نہ باندھیں۔“
(ملتقطاً ،فتاوٰی
رضویہ،ج07،ص 41،46اور 49، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟