Ruku Aur Sujood Ki Tasbeehat Kitni Awaz Se Parhni Chahiye?

رکوع و سجود کی تسبیحات کتنی آواز سے پڑھنی چاہیے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fam-051

تاریخ اجراء:29محرم الحرام1445ھ/17اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز میں رکوع و سجود کی تسبیحات پڑھنے میں اگر آواز دوسرے نمازیوں تک پہنچے، تو کیا بغیر آواز کے تسبیحات پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رکوع و سجود کی تسبیحات صرف زبان ہلا کر ، بغیر آواز کے نہیں پڑھ سکتےکہ  بغیر آواز کے پڑھنا، در حقیقت پڑھنا ہی نہیں اور اس سے  تسبیحات پڑھنے کی سنت بھی   ادا نہیں ہوگی ، کیونکہ پڑھنا اسی وقت کہلاتاہے،جب اتنی آواز سے ہو کہ پڑھنے والاخود سن سکے، لہٰذا تسبیحات کو اتنی آواز سے پڑھنا ہوگا کہ شور و غل یا اونچا سننے کا عارضہ نہ ہو، تو نمازی کے خود اپنے کان سن لیں اور اتنی آواز  سے پڑھنے کی صورت میں  اگر برابر والے نمازی کو بھی ہلکی ہلکی   آواز پہنچے ،تو اس میں کوئی حرج نہیں  ،البتہ بعض لوگ اپنے گمان میں تو     آہستہ پڑھ رہے ہوتے ہیں،لیکن اُن کی آواز  تھوڑی تیز ہوتی ہے، جس کی وجہ سے دوسرے نمازیوں  تک بھی  آواز پہنچ رہی ہوتی ہے، جس سے انہیں نماز میں دشواری ہوتی ہے،ایسے لوگوں کو چاہیے کہ تھوڑی توجہ کے ساتھ کوشش کرکے اتنی آواز ہی نکالیں کہ فقط ان کے اپنے کان سنیں، کیونکہ بےتوجہی میں آواز تھوڑی  بلند ہوجاتی ہے اور پڑھنے والے کو محسوس نہیں ہورہا  ہوتا۔

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’آہستہ پڑھنے کے یہ معنیٰ ہیں کہ اپنے کان تک آواز آنے کے قابل ہو، اگر چہ بوجہ اس کے کہ یہ خود بہرا ہے یا اس وقت کوئی غُل وشور ہورہا ہے، کان تک نہ آئے اور اگر آواز اصلاً پیدا نہ ہوئی، تو صرف زبان ہلی تو وہ پڑھنا، پڑھنا نہ ہوگا اور فرض و واجب و سنّت و مستحب جو کچھ تھا، وہ ادا نہ ہوگا۔ فرض ادا نہ ہوا ،تو نماز ہی نہ ہوئی اور واجب کے ترک میں گنہگار ہوا اورنماز پھیرنا واجب رہا اور سنت کے ترک میں عتاب ہے اور نماز مکروہ اور مستحب کے ترک میں ثواب سے محرومی ۔پھر جو آوا زاپنے کان تک آنے کے قابل ہوگی وہ غالب یہی ہے کہ برابر والے کو بھی پہنچے گی ، اس میں حرج نہیں، ایسی آواز آنی چاہئے،جیسے راز کی بات کسی کے کان میں منہ رکھ کر کہتے ہیں، ضرور ہے کہ اس سے ملا ہُوا جو بیٹھا ہو وہ بھی سُنے مگر اسے آہستہ ہی کہیں گے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ332،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہار شریعت میں ہے:’’جس جگہ کچھ پڑھنا یا کہنا مقرر کیا گیا ہے، اس سے یہی مقصد ہے کہ کم سے کم اتنا ہو کہ خود سن سکے۔‘‘ (بھار شریعت،حصہ3،صفحہ 512،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم