Riyakari Se Bachne Ke Liye Ghar Mein Namaz Parhna?

 

ریاکاری سے بچنے کے لئے گھر میں نماز پڑھنا

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3020

تاریخ اجراء: 24صفر المظفر1446 ھ/30اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا ریاکاری سے بچنے کے لئے گھر میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں ! مسجد کی حاضری لازم ہو ، تو محض ریاکاری سے بچنے کے لئے  گھر میں نماز نہیں پڑھ سکتے کہ مرد پر جماعت واجب ہونے کی صورت میں  پانچوں وقت کی نماز مسجد میں آکر  جماعت کے ساتھ پڑھنا  شرعاً واجب  ہےاور بلاعذر شرعی اسے ترک کرنا،ناجائز و گناہ ہے۔

   نیز  کوئی بھی نیک عمل  ریاکاری  کے خوف سے چھوڑا نہیں جائے گا۔بلکہ بندہ نیک عمل کرتا رہے اور ریاکاری سے بچنے کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا رہے۔

   مصنف عبد الرزاق میں ہے:”لا صلاۃ لجار المسجد الا فی المسجد،قال الثوری فی حدیثہ قیل لعلی ومن جار المسجد؟ قال من سمع النداء“ترجمہ:مسجد کے پڑوسی کی نماز نہیں ،مگر مسجد میں۔ امام ثوریرحمۃ اللہ علیہ کی حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کی گئی کہ مسجد کا پڑوسی کون ہے ؟ ارشا د فرمایا کہ جو اذان کی آواز سنے ۔(مصنف عبد الرزاق ، رقم الحدیث1915، ج 1، ص 497 ، المجلس العلمي، الهند)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ واجب ہے،ایک وقت کابھی بلاعذر ترک گناہ ہے۔"(فتاوی رضویہ،ج 7، ص 194، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   در مختار میں ہے”ولا يترك لخوف دخول الرياء لأنه أمر موهوم“ترجمہ:محض ریا کاری داخل ہونے کے خوف سے نیک عمل کو ترک  نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ ایک امر موہوم ہے۔

   اس کے تحت رد المحتار  میں ہے:”اي لو أراد أن يصلي أو يقرأ فخاف أن يدخل عليه الرياء فلا ينبغي أن يترك لأنه أمر موهوم ۔۔۔وقد سئل العارف المحقق شهاب الدين بن السهروردي عما نصه: يا سيدي إن تركت العمل أخلدت إلى البطالة وإن عملت داخلني العجب فأيهما أولى؟ فكتب جوابه: اعمل واستغفر الله من العجب “ترجمہ:یعنی اگر کوئی شخص نماز پڑھنے یا تلاوت کرنے کا ارادہ کرے اور اسے اس بات کا خوف ہو کہ اس کے دل میں ریاء داخل ہوگی تو یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ اس نیک عمل کو ترک کردے، کیونکہ یہ ایک امر موہوم ہے۔ عارف محقق شہاب الدین بن سہروردی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا جس کی عبارت یہ ہے کہ یاسیدی! اگر میں عمل کو چھوڑدوں تو سستی طاری ہوجاتی ہے اور اگر عمل کرتا ہوں تو میرے دل میں عجب داخل ہوتا ہے، تو ان دونوں میں سے میرے لیے کیا چیز بہتر ہے؟ اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمہ نے لکھا کہ "تو عمل کرتا رہ  اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں  اس ریاکاری  سے (بچنے کے لئے ) استغفار کیا کر۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص 438،دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم