Raat Mein Imam Salat al Tawbah Ki Namaz Mein Jahri Qirat Na Kare Tu Namaz Ka Hukum

رات میں امام صلاۃ التوبہ کی نماز میں جہری قراءت نہ کرے، تو  نماز کا کیا حکم ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12972

تاریخ اجراء: 10صفر المظفر1445 ھ/28اگست 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عشاء کی نماز کے بعد صلاۃ التوبہ کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے، لیکن اس نماز میں امام جہری قراءت نہ کرے۔ تو کیا  نماز درست ادا ہوجائے گی یا مکروہِ تحریمی ہوگی؟ کیا اس نماز میں جہری قراءت کرنا واجب ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رات میں نوافل کی ادائیگی اگر جماعت کے ساتھ ہو تو امام پر جہر یعنی بلند آواز سے قراءت کرنا واجب  ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں امام نے  قصداً واجب کو ترک کیا ہو تو نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی۔ اور اگر امام نے بھول کر اس واجب کو  ترک کیا ہو پھر  سجدہ سہو بھی نہ کیا ہو تو بھی نماز واجب الاعادہ ہوگی۔

   رات کے نوافل جماعت سے ادا کیے جائیں تو امام پر جہر واجب ہے۔ جیسا کہ بحر الرائق میں ہے:والمتنفل بالليل مخير بين الجهر والاخفاء إن كان منفردا، أما إن كان إماما فالجهر واجب۔یعنی رات میں نفل پڑھنے والےمنفرد نمازی  کو  جہری اور سری قراءت   کرنے کا  اختیار ہے ،  اگر وہ  نمازی امام ہے تو (رات کے نوافل میں اس پر) جہری قراءت واجب ہے۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 355، دار الكتاب الإسلامي)

   درِ مختار میں اس حوالے سے مذکور ہے:” فلو ام جھر لتبعیۃ النفل للفرض، "زیلعی"“یعنی اگر امام  ہو تو فرض کے تابع ہونے کی وجہ سے نفل میں بھی جہر کرے ۔ 

    (فلو ام) کے تحت  فتاوٰی شامی میں ہے:” ای فلو صلی المتنفل باللیل اماماً جھر۔“ترجمہ: ”یعنی اگر رات میں نفل پڑھنے والا امام ہو تو جہری قراءت کرے۔ “(  رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص533، مطبوعہ بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”دن کے نوافل میں آہستہ پڑھنا واجب ہے اور رات کے نوافل میں اختیار ہے اگر تنہا پڑھے اور جماعت سے رات کے نفل پڑھے تو جہر واجب ہے۔(بہار شریعت، ج 01، ص  545، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”اگر امام اُن رکعتوں میں جن میں آہستہ پڑھنا واجب ہے ۔ جیسے ظہر و عصر کی سب رکعات اور عشاء کی پچھلی دو اور مغرب کی تیسری،  اتنا قرآن عظیم جس سے فرض قراءت ادا ہو سکے(اوروُہ ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مذہب میں ایک آیت ہے) بھول کر بآواز پڑھ جائیگا تو بلاشبہ سجدہ سہو واجب ہوگا، اگر بلا عذرِشرعی سجدہ نہ کیا یا اس قدر قصداً بآواز پڑھا تو نماز کا پھیرنا واجب ہے ۔۔۔۔بحرالرائق و عالمگیری میں ہے:لا یحب السجود فی العمد و انما یجب الاعادۃ جبرا لنقصانہ (یعنی عمداً (ترک واجب سے) سجدہ سہو واجب نہیں ، سجدہ سہو تو کمی کو ختم کرنے کے لئے  واجب ہوتا ہے ۔ “(فتاوی رضویہ، ج06،ص251-52،رضافاؤنڈیشن،لاھور، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم