مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-12777
تاریخ اجراء:05رمضان المبارک1444ھ/27مارچ2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے
ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ امام صاحب نے نمازِ عشاء میں قراءت
کرتے ہوئے اس آیتِ مبارک"وَ
اذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِیْرًا وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ۠(۴۱)"(پارہ 03، سورۃ آل عمران، آیت41)کو
پڑھتے ہوئے غلطی سے"سَبِّحْ
بِالْعَشِیِّ"کی جگہ"سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ"پڑھ دیا۔ اور پھر نماز کے آخر میں سجدہ سہو
بھی نہیں کیا، تو کیا اس صورت میں امام صاحب کی
نماز درست ادا ہوگئی؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آیتِ قرآنی
میں کسی کلمہ کے اضافہ سے اگر معنیٰ فاسد ہوجائیں
تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اور معنیٰ فاسدنہ ہونے کی صورت میں نماز فاسد نہیں ہوتی، لہذا
پوچھی گئی صورت میں امام صاحب کے"سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ"کی جگہ"سَبِّحْ بِحَمْدِ
رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ"پڑھنے
سے چونکہ
معنیٰ فاسد نہیں ہوئے اسی لئے وہ نمازِ عشاء فاسد
نہیں لہذا اس نماز کو دہرانا امام صاحب پر لازم نہیں۔ البتہ صورتِ مسئولہ
میں سجدہ سہو کی حاجت ہی
نہیں تھی کہ نماز میں سجدہ سہو تو اس وقت واجب ہوتا ہے
جب نمازی واجباتِ نماز میں سے کسی واجب کو بھولے سے ترک کردے جبکہ
یہاں کسی واجب کا ترک نہیں ہوا کہ جس کی تلافی کے
لیے سجدہ سہو کیا جاتا۔
یہاں
تک تو آپ کے پوچھے گئے سوال کا جواب تھا کہ صورتِ مسئولہ
میں وہ نمازِ عشاء فاسد نہیں ہوئی، لیکن یہ
مسئلہ ضرور ذہن نشین رہے کہ قرآن
پاک کی کسی آیت میں قصداً کوئی اضافہ کرنا یا
پھر کمی کردینا سخت ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے کہ اس میں
کلام اللہ کی تحریف ہے۔ ہاں! سہواً یا مغالطے سے
ایسا ہوجائے (جیسا کہ صورتِ مسئولہ میں ہوا) تو اس صورت میں گناہ نہیں کہ اس امت
سے خطاء و نسیان کو معاف کیا گیا ہے۔
کسی کلمہ کے اضافہ سے معنیٰ فاسد
ہوجائیں تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی
عالمگیری اور محیط برہانی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں
مذکور ہے:”والنظم للاول“منھا زيادة كلمة لا على وجه البدل؛
الكلمة الزائدة۔۔۔إن لم تغير المعنى فإن كانت في القرآن نحو أن
يقرأ"اِنَّ اللہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ
خَبِیْرًا بَصِیْرًا"لا تفسد
بالإجماع وإن لم تكن في القرآن نحو أن يقرأ"فِیْھَا
فَاکِھَۃٌ وَّ نَخْلٌ وَّ تُفَّاحٌ وَّ رُمَّانٌ"لا تفسد صلاته عند عامة المشايخ، هكذا في المحيط۔“یعنی قراءت کی غلطیوں
میں سے ایک غلطی آیت میں کسی کلمہ کا اضافہ
کرنا بھی ہے جبکہ وہ کسی دوسرے کلمے کے بدلے میں نہ پڑھا
ہو۔ پس اس زائد کلمہ سے اگر معنی
فاسد نہ ہوتے ہوں نیز وہ زائد کلمہ قرآن میں بھی موجود ہو جیسا کہ نمازی کا"اِنَّ اللہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیْرًا"کی جگہ"اِنَّ اللہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًا
بَصِیْرًا"پڑھنا، تو اس
صورت میں بالاجماع نماز فاسد نہیں ہوگی، اور اگر وہ زائد کلمہ
قرآن میں موجود نہ ہو جیسا کہ
نمازی کا"فِیْھَا فَاکِھَۃٌ وَّ
نَخْلٌ وَّ رُمَّانٌ"کی
جگہ"فِیْھَا فَاکِھَۃٌ وَّ نَخْلٌ وَّ
تُفَّاحٌ وَّ رُمَّانٌ"پڑھنا،
تو اس صورت میں اکثر مشایخ کرام علیہم الرحمہ کے نزدیک
نماز فاسد نہیں ہوگی، ایسا ہی محیط میں مذکور
ہے۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب
الصلوٰۃ، ج 01، ص 80 ،
مطبوعہ پشاور، ملتقطاً و ملخصاً)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی
علیہ الرحمہ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:”کوئی کلمہ زیادہ کر دیا
،تووہ کلمہ قرآن میں ہے یا نہیں اور بہر صورت معنی کا فساد ہوتا ہے یا
نہیں۔۔۔ اگر معنی متغیر نہ ہوں، تو فاسد
نہ ہوگی اگرچہ قرآن میں اس کا مثل نہ ہو، جیسے اِنَّ اللہَ کَانَ
بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا اور فِیْھَا
فَاکِھَۃٌ وَّ نَخْلٌ وَّ تُفَّاحٌ وَّ رُمَّانٌ۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 555،
مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً و ملخصاً)
سہواً
یا مغالطے سے قرآن غلط پڑھا تو گناہ نہیں۔ جیسا کہ
فتاوٰی رضویہ میں ہے:” حرف صحیح ادا کرنے کا قصد
کیا پھر کچھ نکلے اس پر مواخذہ نہیں " لَا یُكَلِّفُ
اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ط"(اﷲ
تعالٰی کسی ذی نفس کو اسکی طاقت سے بڑھ کر مکلف
نہیں ٹھہراتا)۔ ‘‘(فتاوٰی
رضویہ، ج 06، ص 273، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟