Kya Naa Baligh Samjhdar Larka Namaz Me Luqma De Sakta Hai?

نابالغ سمجھدارلڑکا نماز میں لقمہ دے سکتا ہے ؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Har-4671

تاریخ اجراء:16جمادی الاخری1443 ھ/20جنوری2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام صاحب نےعشاء کی پہلی رکعت میں سورۃ القدرکی تلاوت کی اورغلطی سےدوسری آیت ﴿ وَ مَاۤ اَدْرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الْقَدْرِچھوڑدی،اوراس سےآگےقراءت کرنےلگے،نمازمیں شریک ایک نابالغ حافظ صاحب نےلقمہ دیا،امام صاحب نےلقمہ لے کرغلطی درست کی اورنمازمکمل کرلی،اب سوال یہ ہےکہ یہاں لقمہ دینےکامحل تھایانہیں؟نیز کیا نابالغ لڑکالقمہ دے سکتا ہے؟

   نوٹ :حافظ صاحب کی عمر گیارہ سال ہے اور وہ درست طریقے سے افعال نماز ادا کرتے ہیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آیت  چھوٹنےکی وجہ سےاگرچہ معنی میں کوئی خرابی پیدانہیں ہوئی،لیکن چونکہ یہ قراءت میں غلطی تھی،لہذایہاں لقمہ دینا منصوص ہونے کی وجہ سے درست تھا۔اسی طرح لقمہ دینےوالانابالغ سمجھدار قریب البلوغ لڑکا ہے ،جب نمازکےافعال درست طریقہ سےاداکرلیتاہے،تواس کےلقمہ دینےکی وجہ سےبھی نمازمیں کوئی خرابی پیدانہیں ہوئی، اور نمازدرست اداہوگئی۔

   درمختار ،مفسدات نماز کے بیان میں ہے :’’(وفتحہ علی غیرامامہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    (بخلاف فتحہ علی امامہ)فانہ لایفسد (مطلقا) لفاتح وآخذ بکل حال ملتقطاً‘‘اوراپنےامام کےعلاوہ کولقمہ دینا(نمازکوفاسدکردیتاہے)برخلاف اپنےامام کولقمہ دینےکے،کہ اس صورت میں لقمہ دینےوالےاورلینےوالےکی کسی صورت میں نمازفاسدنہیں ہوگی۔

   ’’بکل حال‘‘کےتحت ردالمحتارمیں ہے:’’ای سواءقراء الامام بقدرماتجوزبہ الصلاۃ ام لا، انتقل الی آیۃ اخری ام لا، تکرر الفتح ام لا،ھوالاصح‘‘یعنی امام نےقدرجوازقراءت کی ہویانہیں،دوسری آیت کی طرف منتقل ہواہو،یانہیں،لقمہ مکررہویانہیں،یہی صحیح ہے۔(درمختارمع ردالمحتار،ج2،ص461،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’صحیح یہ ہے کہ جب امام قراءت میں بھولے ،مقتدی کو مطلقاً بتانا روا (یعنی جائز )اگرچہ قدر واجب پڑھ چکا ہو ، اگرچہ ایک سے دوسرے کی طرف انتقال ہی کیا ہو  کہ صورت اولیٰ میں گو واجب ادا ہوچکا ،مگر احتمال ہے کہ  رکنے الجھنے  کے سبب کوئی لفظ  اس کی زبان سے ایسا نکل جائے ، جو مفسد نماز ہو ، لہٰذا مقتدی کو  اپنی نماز درست رکھنے کے  لیے بتانے کی حاجت ہے ، بعض عوام حفاظ  کو مشاہدہ کیا گیا کہ  جب تراویح میں بھولے اور یاد نہ آیا،  تو ایں  آں یا اور اسی قسم کے الفاظ  بے معنی ان کی زبان سے نکلے  اور فساد نماز کا باعث ہوئے ، اور صورت ثانیہ میں  اگرچہ جب قراءت  رواں ہے  تو صرف آیت چھوٹ جانے سے فساد نماز کا اندیشہ نہ ہو، مگر اس بات میں شارع صلی اللہ  تعالی علیہ وسلم سے نص وارد (ہے )۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج7،ص 258، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   قریب البلوغ کےلقمہ دینےسےمتعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:’’وفتح المراھق کالبالغ‘‘اورمراہق یعنی قریب البلوغ کالقمہ ،بالغ کی طرح ہے۔ (فتاوی عالمگیری،ج1،ص99،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’بالغ مقتدیوں کی طرح تمیزداربچہ کا بھی اس ( یعنی لقمہ دینے) میں حق ہے،کہ اپنی نمازکی اصلاح کی سب کوحاجت ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج7،ص284،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

   بہارشریعت میں ہے:’’لقمہ دینےوالےکےلیےبالغ ہوناشرط نہیں،مراہق بھی لقمہ دےسکتاہے،بشرطیکہ،نمازجانتاہو،اورنمازمیں ہو۔‘‘ (بھارشریعت،ج1،ص608،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم