مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3232
تاریخ اجراء:26ربيع الثانی1446ھ/30اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کسی کے ذمہ بہت سی قضا نمازیں ہوں، تو وہ ادائیگی کیسے کرے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جب کسی شخص کی قضا نمازیں پانچ سے زائد ہوجائیں، تو باہم ان قضا نمازوں میں، یونہی قضا اور وقتی نمازوں میں ترتیب ساقط ہوجاتی ہے،لیکن اصح مذہب کے مطابق قضا نمازوں کی ادائیگی کے وقت قضا نماز نیت میں متعین و مشخص ہو،یہ ضروری ہے،اگر بلا تعیین قضا نماز پڑھ لی،تو قضا نماز ادا نہیں ہوگی۔تعیین کے لیے فقہائے کرام نے دو چیزیں ارشاد فرمائی ہیں:(1)نماز متعین ہو(2)تاریخ متعین ہو۔
یہ دونوں چیزیں متعین ہونا ضروری ہیں۔مثلاً:کسی شخص کی10دنوں کی فجرکی نمازیں قضاہیں تویہ نیت کرے کہ فلاں تاریخ کی فجرکی نماز قضاکرتاہوں۔
اور اگر قضا نمازیں بہت زیادہ ہوجائیں،تو پھر دن تاریخ عموماً بھول جاتے ہیں،اگر یاد بھی ہوں، تو اس کا خیال رکھنا حرج سے خالی نہیں، اس کے پیشِ نظر فقہائے کرام نے اس کاآسان طریقہ یہ ارشاد فرمایا کہ مثال کے طور پر کسی شخص کی پہلی محرم الحرام سے لے کر بیس محرم الحرام تک کی فجر کی نمازیں قضا ہوگئیں، وہ یوں نیت کرے:مجھ پر قضا نمازوں میں جو پہلی فجر ہے،اسے ادا کرتا ہوں یا مجھ پر قضا نمازوں میں جو آخری فجر ہے، اسے ادا کرتا ہوں۔اس طرح کی نیت میں نماز کے نام سےنماز متعین ہوگئی اورپہلی یا آخری سے دن بھی متعین ہوگیا۔پہلی سے یکم تاریخ والی فجر متعین ہو گئی اور آخری سے بیس تاریخ والی فجر متعین ہوگئی ہے۔جب وہ اس نیت کےساتھ ایک فجر پڑھ لے،تو دوبارہ ویسے ہی نیت کرے، اب جو باقی نمازیں ہوں گی ان میں پہلی یا آخری حسب الفاظ نیت میں آئے گی،کیونکہ ایک ادا ہوجانے کے بعد اس کے بعد والی پہلی یا آخری بن جائے گی، یوں دن اور نماز دونوں متعین ہوجائیں گے۔
تبیین الحقائق میں ہے:”فى قضاء الصلاة لا يجوز ما لم يعين الصلاة ويومها بان يعين ظهر يوم كذا مثلا: ولو نوى اول ظهر عليه او آخر ظهر عليه جاز لان الصلاة تعينت بتعيينه وكذا الوقت تعين بكونه اولا او آخرا فان نوى اول صلاة عليه وصلى فما يليه يصير اولا ايضا فيدخل فى نيته اول ظهر عليه ثانيا وكذا ثالثا الى ما لا يتناهى وكذا الآخر وهذا مخلص من لم يعرف الاوقات فاتته او اشتبهت عليه او اراد التسهيل على نفسه“ترجمہ:قضاء نمازوں کی ادائیگی درست نہیں ہوگی،جب تک کہ نماز اور اس کا دن معین نہ کرے،مثلاً:فلاں دن کی ظہر اور اگر یوں نیت کی کہ میرے ذمہ جو پہلی ظہر یا آخری ظہر ہے، تو یہ بھی درست ہے؛کیونکہ نماز کے نام سے نماز متعین ہوگئی اور اول یا آخر کہنے سے وقت متعین ہوگیا اور جب اپنے ذمہ پہلی کی نیت سے ایک نماز ادا کرلے گا،تو جو اس نماز کے ساتھ ملی ہوئی ہوگی وہ پہلی ہوجائے گی۔یوں دوسری مرتبہ میں بھی اس پر جو پہلی ظہر کی نمازہے، وہ نیت میں داخل ہوگی،یونہی تیسری دفعہ بلکہ نمازوں کے ختم ہونے تک یوں ہی ہوتا رہے گا۔آخری کے ساتھ نیت کرنے میں بھی یہی حکم ہوگا اور یہ آسان طریقہ ہے،اس کے لیے جس کو اپنی فوت شدہ نمازوں کے اوقات بھول گئے ہوں یا اس پر معاملہ مشتبہ ہوگیا یا وہ اپنے اوپر آسانی چاہتا ہو۔(تبیین الحقائق، جلد6، صفحہ220، مطبوعہ قاھرۃ)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”زید پر نہ ان 15 دن کی قضا میں ترتیب ضرور تھی، نہ ان پانچ دن کی قضا میں ضرور ہے۔اسے اختیا ر ہے ان میں جو نماز چاہے پہلے ادا کرے،جو چاہے پیچھے کہ قضا نمازیں جب پانچ فرضوں سے زائد ہوجاتی ہیں ترتیب ساقط ہوجاتی ہے یعنی باہم ان میں بھی ہر ایک کی تقدیم وتاخیر کا اختیار ہوتا ہے اور ان میں اور وقتی نماز میں بھی رعایت ترتیب کی حاجت نہیں رہتی،پھر ان نمازوں کے حق میں ترتیب نہ باہمی نہ بلحاظ وقتی، کوئی کبھی عود نہیں کرتی، اگرچہ ادا کرتے کرتے چھ سے کم رہ جائیں، مثلاً:اب اسی صورت میں زید پر پانچ دن کی پچیس نمازیں ہیں، جب دو ہی رہ جائیں گی،تو بھی اسے اختیار ہے کہ اس کی ادا سے پہلے وقتیہ نماز پڑھ لے، ہاں اصح مذہب پر اتنا لحاظ ضرور ہے کہ نماز نیت میں معین مشخص ہو جائے”ھوا لاحوط من تصحیحین“(دونوں تصحیحوں میں احوط یہ ہے)مثلاً:دس(۱۰) فجریں قضا ہیں، تو یوں گول نیت نہ کرے کہ فجر کی نماز کہ اس پر ایک فجر تو نہیں جو اسی قدر بس ہو،بلکہ تعیین کرے کہ فلاں تاریخ کی فجر،مگر یہ کیسے یاد رہتا ہے اور ہو بھی تو اس کا خیال حرج سے خالی نہیں،لہٰذا اس کی سہل تدبیر یہ نیت ہے کہ پہلی فجر جس کی قضا مجھ پر ہے، جب ایک پڑھ چکے پھر یوں ہی پہلی فجر کی نیت کرے کہ ایک تو پڑھ لی، اس کی قضا اس پر نہ رہی نو(۹) کی ہے،اب ان میں کی پہلی نیت میں آئے گی،یونہی اخیر تک نیت کی جائے، اسی طرح باقی سب نمازوں میں کہے اور جس سے ترتیب ساقط ہو، جیسے یہی دس یا چھ فجر کی قضا والا پہلی کی جگہ پچھلی بھی کہہ سکتا ہے نیچے سے اوپر کو ادا ہوتی چلی جائے گی۔(فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ142،143، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:”ہر بار یوں نیت کرے کہ سب میں پہلی وہ نماز جو مجھ سے قضا ہوئی ، جب ایک پڑھ لی، پھر یوں نیت کرے یعنی اب جو باقیوں میں پہلی ہے، اخیر تک اتنی پڑھے کہ اب اس پر قضا باقی رہنے کا گمان نہ رہے۔(فتاوی رضویہ،جلد08، صفحہ163، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
قضا نمازوں کی ادائیگی سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک سے امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ کا رسالہ بنام"قضا نمازوں کا طریقہ" بہت مفید ہے۔لنک یہ ہے:
https://data2.dawateislami.net/Data/Books/Download/ur/pdf/2014/70-1.pdf
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟