Qaza Namaz Ki Niyat Kaise Kare?

قضا نماز کی نیت کیسے کریں ؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Faj-7501

تاریخ اجراء:10جمادی الاولی 1444ھ/05دسمبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کو یہ معلوم ہے کہ فلاں مہینے کی فلاں تاریخوں کی 10 نمازیں قضا ہوئی ہیں، اب زید ان نمازوں کی ادائیگی میں دن معین کرنے کے بجائے یوں نیت کرتا ہے کہ میری سب سے پہلی فلاں نماز جو قضا ہوئی ہے ،اسے ادا کرتا ہوں، تو  کیا اس صورت میں زید کی وہ قضا نمازیں ادا ہوجائیں گی؟رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جب کسی شخص کی قضا نمازیں پانچ سے زائد ہوجائیں، تو  باہم ان قضا نمازوں میں،  یونہی  قضا اور وقتی نمازوں  میں ترتیب ساقط ہوجاتی ہے ، لیکن اصح مذہب کے مطابق   قضا نمازوں کی ادائیگی  کے  وقت  قضا نماز   نیت میں متعین  و مشخص ہو   ، یہ ضروری ہے،  اگر بلا تعیین   قضا نماز  پڑھ لی، تو  قضا نماز ادا نہیں ہوگی، تعیین کے لیے فقہائے کرام نے   دو چیزیں ارشاد فرمائی ہیں (1)نماز متعین ہو(2) دن متعین  ہو ۔ یہ دونوں چیزیں متعین ہونا ضروری ہے  ۔ مثلا : کسی شخص  پر دو دن (پیر ، منگل)کی  فجر کی قضا نمازیں   ہیں، اور وہ  شخص یہ  نمازیں ادا کرنا چاہتا ہے، تو  یوں نیت کرے  کہ پیر کی فجر کی  نماز  ادا  کر رہاہوں ۔

    جب قضا نمازیں  زیادہ ہوجائیں ،تو پھر دن  تاریخ  عموما بھول جاتے ہیں ،اگر یاد بھی ہوں، تو  اس  کا خیال رکھنا حرج سے خالی نہیں ، اس کے پیشِ نظر  فقہائے کرام نے نیت کا  آسان طریقہ یہ ارشاد فرمایا کہ  مثال کے طور پر  کسی شخص  کی  پہلی محرم الحرام سے  لے کر بیس محرم الحرام تک کی فجر کی نمازیں قضا ہوگئیں ، وہ  یوں  نیت کرے  :مجھ پر قضا نمازوں میں جو پہلی فجر ہے ، اسے  ادا کرتا ہوں یا  مجھ پر قضا نمازوں میں جو آخری  فجر  ہے ، اسے  ادا کرتا ہوں ۔ اس  طرح کی نیت میں نماز کے  نام سے   نماز متعین ہوگئی اور  پہلی یا آخری سے  دن بھی متعین ہوگیا ۔پہلی  سے یکم  تاریخ والی فجر متعین ہو گئی  اور  آخری  سے  بیس تاریخ والی  فجر متعین ہوگئی  ہے ۔   جب وہ اس نیت کےساتھ  ایک  فجر پڑھ لے ،تو دوبارہ ویسے ہی نیت کرے، اب جو باقی نمازیں ہوں گی،  ان میں پہلی یا آخری حسب الفاظ    نیت میں آئے گی ، کیونکہ  ایک ادا ہوجانے کے بعد  اس کے بعد والی  پہلی  یا آخری بن جائے گی ، یوں  دن  اور نماز دونوں متعین  ہوجائیں گے۔

    مذکورہ بالا تمہید کے بعد  صورت مسؤلہ کے متعلق حکم  یہ ہے کہ  جب مذکورہ شخص کی دو دن (مثلا: پیر ، منگل)   کی نمازیں قضا ہوئیں ، اس نے آسانی کے پیش نظر  مثلاً: فجر کی ادائیگی میں  یوں نیت کی کہ ( میری سب سے پہلی فلاں(فجر کی ) نماز جو قضا ہوئی ،  اسے ادا کرتا ہوں)تو  اس نیت کے ساتھ  اس کی فجر کی نماز متعین ہوگئی ،  سب میں پہلی سے  پیر کا دن متعین ہوگیا  اور  فجرکے نام سے   نماز متعین ہوگئی ،  اس نیت  کے ساتھ   اس کی فجر کی نماز  ادا  ہوگئی ۔

     منگل کی فجر  کی ادائیگی کے لیے  دوبارہ    نیت یوں کرے کہ  جو مجھ  پر فجر کی قضائیں ہیں ، ان میں پہلی فجر  ادا کرتا ہوں ،  اس صورت میں منگل کی فجر ہی متعین ہوگی ، کیونکہ  اس کے علاوہ کوئی اور فجر اس پر ہے ہی نہیں    یا صرف یوں نیت کرے کہ  مجھ پر جو فجر کی قضا ہے اسے اداکرتا ہوں ، اس سے بھی منگل کی فجر  ہی متعین ہوگی، کیونکہ اس کے علاوہ  کوئی فجر اس  پر قضا ہے ہی نہیں ۔  جن کتب میں  ہے کہ  ہر دفعہ  یوں نیت کرے کہ  سب میں پہلی فجر  ادا کرتا ہوں  یا سب سے آخری  فجر ادا کرتا ہوں  وغیرہ  ، وہاں بھی یہی مراد ہے کہ جو باقیوں میں  پہلی یا آخری ہے وہ ادا کرتا ہوں ، کیونکہ اسی سے نماز متعین اور مشخص ہوگی ،  امام اہلسنت  الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ  نے بھی   ایک فتوی میں   اس طرح کی نیت  کی وضاحت باقیوں میں پہلی سے ارشاد فرمائی ہے ۔ لہذا  نیت میں سب سے پہلی  یا سب سے آخری سے دل یا زبان سے کہتے وقت کیا معنی مراد ہوگا ؟ یہ کم از کم نیت  میں واضح ہونا ضروری ہے اور سب سے پہلی کہتے وقت  اپنے ذمہ واجب الاداء اس  متعین نماز مثلا: فجر کی  نمازوں   میں جو سب سے پہلی  ہو ، اس کی نیت کرے اور سب سے آخری کہتے وقت واجب الاداء اس نماز  مثلا :فجر میں جو سب سے آخری  ہے، کی نیت کرے۔

    تبیین الحقائق میں ہے :” فى قضاء الصلاة لا يجوز ما لم يعين الصلاة ويومها بان يعين ظهر يوم كذا مثلا: ولو نوى اول ظهر عليه او آخر ظهر عليه جاز لان الصلاة تعينت بتعيينه وكذا الوقت تعين بكونه اولا او آخرا فان نوى اول صلاة عليه وصلى فما يليه يصير اولا ايضا فيدخل فى نيته اول ظهر عليه ثانيا وكذا ثالثا الى ما لا يتناهى وكذا الآخر وهذا مخلص من لم يعرف الاوقات فاتته او اشتبهت عليه او اراد التسهيل على نفسه“ یعنی قضاء نمازوں کی ادائیگی  درست  نہیں ہوگی ،جب تک کہ نماز اور  اس کا دن معین نہ  کرے، مثلا: فلاں دن کی ظہر    اور  اگر  یوں نیت کی   کہ   میرے ذمہ   جو پہلی ظہر  یا  آخری  ظہر ہے،   تو یہ بھی درست ہے  ،کیونکہ  نماز  کے نام سے  نماز متعین ہوگئی اور   اول یا آخر کہنے  سے  وقت متعین ہوگیا    اور جب  اپنے ذمہ پہلی کی نیت سے   ایک نماز ادا کرلے گا  ،تو  جو  اس  نماز کے ساتھ ملی ہوئی ہوگی  وہ پہلی  ہوجائے گی   ۔   اس طرح نیت کرنے میں  جو اس پر نماز ہے ان میں جو پہلی ظہر ہے، وہ  نیت  میں داخل ہوگی ،یونہی  تیسری  دفعہ بلکہ نمازوں کے ختم ہونے تک  یوں ہی ہوتا رہے گا ۔  آخری کے ساتھ نیت کرنے میں  بھی یہی حکم ہوگا   اور یہ    آسان طریقہ ہے،  اس کے لیے  جس کو اپنی فوت شدہ نمازوں کے اوقات بھول گئے ہوں  یا  اس پر  معاملہ مشتبہ ہوگیا  یا  وہ  اپنے  اوپر آسانی چاہتا  ہو ۔(تبیین الحقائق، جلد6، صفحہ 220، مطبوعہ ملتان)

    ردالمحتار میں ہے :”وفى الصلاة أن يعين الصلاة ويومها بأن يعين ظهر يوم كذا ولو نوى أول ظهر عليه أو آخره جاز“یعنی قضا نمازوں کی ادائیگی میں  ضروری ہے کہ نماز اور اس کا دن معین  کیاجائے  اس طرح کہ  فلاں دن کی ظہر  اور  اگر یوں نیت کی کہ  جو میرے ذمہ  پہلی ظہر ہے یا  جو آخری ظہر ہے،  تویہ بھی درست ہے۔(ردالمحتار، جلد6، صفحہ734، مطبوعہ بیروت)

    ردالمحتار میں ہے :”لو کان فی ذمتہ ظھر واحد فائت  فانہ یکفیہ ان ینوی  ما فی ذمتہ  من الظھر الفائت وان لم یعلم  انہ من  ای یوم “یعنی اگر  کسی کے ذمہ میں ایک  ظہر کی قضا    ہے، تو  اپنے ذمہ  میں  فوت شدہ ظہر کی نیت  کافی ہے، اگرچہ معلوم نہ ہو کہ  کون سے دن کی ہے۔(ردالمحتار، جلد1، صفحہ 419، مطبوعہ بیروت)

    اعلی حضرت امام اہلسنت  الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” زید پر نہ ان 15 دن کی قضا میں ترتیب ضرور تھی، نہ ان پانچ دن کی قضا میں ضرور ہے۔  اسے اختیا ر ہے ان میں جو نماز چاہے پہلے ادا کرے ،جو چاہے پیچھے کہ قضا نمازیں جب پانچ فرضوں سے زائد ہوجاتی ہیں ترتیب ساقط ہوجاتی ہے یعنی باہم ان میں بھی ہر ایک کی تقدیم وتاخیر کا اختیار ہوتا ہے اور ان میں اور وقتی نماز میں بھی رعایت ترتیب کی حاجت نہیں رہتی ،پھر ان نمازوں کے حق میں ترتیب نہ باہمی نہ بلحاظ وقتی، کوئی کبھی عود نہیں کرتی، اگر چہ ادا کرتے کرتے چھ سے کم رہ جائیں، مثلاً :اب اسی صورت میں زید پر پانچ دن کی پچیس نمازیں ہیں، جب دو ہی رہ جائیں گی ،تو بھی اسے اختیار ہے کہ اس کی ادا سے پہلے وقتیہ نماز پڑھ لے، ہاں اصح مذہب پر اتنا لحاظ ضرور ہے کہ نماز نیت میں معین مشخص ہو جائے ’’ھوا لاحوط من تصحیحین ‘‘( دونوں تصحیحوں میں احوط یہ ہے ) مثلاً: دس (۱۰) فجریں قضا ہیں، تو یوں گول نیت نہ کرے کہ فجر کی نماز کہ اس پر ایک فجر تو نہیں جو اسی قدر بس ہو ،بلکہ تعیین کرے کہ فلاں تاریخ کی فجر ،مگر یہ کیسے یاد رہتا ہے اور ہو بھی تو اس کا خیال حرج سے خالی نہیں ،لہٰذا اس کی سہل تدبیر یہ نیت ہے کہ پہلی فجر جس کی قضا مجھ پر ہے، جب ایک پڑھ چکے پھر یوں ہی پہلی فجر کی نیت کرے کہ ایک تو پڑھ لی،  اس کی قضا اس پر نہ رہی نو (۹) کی ہے ،اب ان میں کی پہلی نیت میں آئے گی ،یونہی اخیر تک نیت کی جائے، اسی طرح باقی سب نمازوں میں کہے اور جس سے ترتیب ساقط ہو ، جیسے یہی دس یا چھ فجر کی قضا والا پہلی کی جگہ پچھلی بھی کہہ سکتا ہے نیچے سے اوپر کو ادا ہوتی چلی جائے گی۔“(فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ 142، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :” ہر بار  یوں نیت کرے کہ سب میں پہلی وہ نماز جو مجھ  سے قضا ہوئی ، جب ایک پڑھ لی، پھر یوں نیت کرے یعنی اب جو باقیوں میں پہلی ہے، اخیر تک اتنی پڑھے کہ اب اس پر قضا باقی رہنے کا گمان نہ رہے۔“(فتاوی رضویہ ، جلد08، صفحہ 163، رضا فاؤنڈیشن،  لاھور)

    فتاوی امجدیہ میں ہے :”فقہا فرماتے ہیں جس کے ذمہ متعدد نمازیں ہوں اور دن یا د نہ ہوں ، وہ قضا  میں یہ نیت کرے   کہ سب میں پہلی یا سب میں پچھلی فلاں نماز جو میرے ذمہ ہے، وہ پڑھتا ہوں   کہ اس صورت میں تعیین و تخصیص ہوگئی ، ہر نماز میں یہی نیت کرے  کہ جو پڑھ چکا  اب اس کے بعد والی  سب میں پہلی یا پچھلی ایک ہی ہوگی ۔ “(فتاوی امجدیہ، جلد1، صفحہ 273، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم