Qaza Namaz Jamaat Se Ada Karna Kaisa ?

 

قضا نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: MUI-0140

تاریخ اجراء: 27 ذو القعدۃ  1445 ھ / 5 جون  2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم کچھ ساتھی تھے سب کی نماز قضا ہوگئی،اب ایک مسجد میں رُک کر سب کو قضا نماز پڑھنی تھی، تو ہم اکیلے پڑھ رہے تھے کہ ایک عالم صاحب نے قضا کی جماعت شروع کر دی۔تو کیا قضا  نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے؟ نیز  میں نے نماز شروع کر دی تھی، تو میرے لیے کیا حکم تھا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کسی عام معاملے کی وجہ سے پوری جماعت کی نماز قضاہوگئی ، توقضا نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل و مسنون ہے ، اور مسجد میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ تاہم  اگرکسی خاص وجہ سے بعض افراد کی نماز قضا ہوگئی، جیسے پوچھی گئی صورت میں ، تواب  گھر میں تنہا پڑھنے کا حکم ہے ۔ ہاں تنہا  مسجد میں بھی  پڑھ سکتے ہیں، جبکہ دوسروں پر قضا  کااظہار نہ ہو۔

   اب رہا یہ مسئلہ کہ آپ لوگوں نےتنہاقضا نماز پڑھنی  شروع کی تھی کہ اس دوران ایک عالم  صاحب نے اسی قضا نماز کی جماعت   شروع کردی،  تو اب   کیا کیا جائے۔اب یہاں دو پہلو ہیں ،ایک تو یہ کہ اپنی نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوجائےکہ  یہ توڑنا بلا عذر نہیں ،بلکہ فضیلت جماعت حاصل کرنے اور اکمال کے لیے ہے۔دوسرا یہ کہ شامل نہ ہو ؛کیونکہ قضا کا اظہار پایا جارہا ہے کہ اس عالم کو  جماعت میں شامل ہونے کے سبب قضا ادا کرنا ظاہر ہوجائے گا ۔چونکہ یہاں توڑنے اور جماعت میں شامل ہونے کا حکم صرف جائز ہے، جبکہ قضا کا اظہار گناہ اور اس کا چھپانا واجب ہے۔ لہذا ترجیح واجب والے پہلو کو ہوگی اورنماز توڑکر جماعت میں شامل ہونا ،جائز نہیں ہوگا ۔ پوچھی گئی صورت میں آپ کے لیے یہی حکم تھا کہ نماز نہ توڑیں بلکہ تنہا ہی مکمل کریں۔

   فتاوی رضویہ میں ہے:”اگر کسی امر عام کی وجہ سے جماعت بھر کی نماز قضا ہوگئی،تو جماعت سے پڑھیں، یہی افضل ومسنون ہے اور مسجد میں بھی پڑھ سکتے ہیں،اور جہر ی نمازوں میں امام پر جہر واجب ہے،اگر چہ قضا ہو۔ اور اگر بوجہ خاص بعض اشخاص کی نماز جاتی رہی،تو گھر میں تنہا پڑھیں کہ معصیت کا اظہار بھی معصیت ہے،قضا حتی الامکان جلد ہو ،تعیین وقت کچھ نہیں،ایک وقت میں سب وقتوں کی پڑھ سکتا ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 162، برکات رضا پوربندر)

   در مختار اور رد المحتار کے باب قضاء الفوائت میں ہے: ”وينبغي أن لا يطلع غيره على قضائه لأن التأخير معصية فلا يظهرها. تقدم في باب الأذان أنه يكره قضاء الفائتة في المسجد وعلله الشارح بما هنا من أن التأخير معصية فلا يظهرها. وظاهره أن الممنوع هو القضاء مع الاطلاع عليه، سواء كان في المسجد أو غيره كما أفاده في المنح..قلت: والظاهر أن ينبغي هنا للوجوب وأن الكراهة تحريمية لأن إظهار المعصية معصية‘‘ ترجمہ: صاحب در مختار فرماتے ہیں کہ اپنی قضا نماز  سے دوسرے کو باخبر نہ کریں  کہ وقت گزار کر نماز پڑھنا گناہ ہے، لہذا اسے ظاہر نہ کریں۔ اس کے تحت علامہ شامی فرماتے ہیں کہ باب الاذان میں یہ بات گزری کہ مسجد میں قضانماز پڑھنا مکروہ ہےاور شارح نے اس کی علت یہ بیان کی کہ وقت گزار کرنماز پڑھنا گناہ ہے ، لہذا اسے ظاہر نہ کریں۔ اس کا ظاہر یہ ہے کہ ممانعت قضا کو ظاہر کرکے پڑھنے کی ہے ، خواہ مسجد میں ہو یا کسی اور جگہ،جیساکہ منح الغفار میں اس کا افادہ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہاں لفظ " ینبغی" وجوب کے لیےہے، اور کراہت تحریمی ہے، کہ گناہ کا اظہار گناہ ہے۔“ (در مختار، جلد 2، صفحہ 77، دار الفکر بیروت)

   امام اہل سنت رحمۃا للہ علیہ نے مکروہ تحریمی ہونےکی تائید کی ہے،چنانچہ جد الممتار میں ہے:”قوله : أن المكروه قضاؤها:سيأتي آخر قضاء الفوائت من المحشي استظهاراً أن الكراهة فيه تحريمية وهو ظاهر‘‘ در مختار میں مسجد میں قضا پڑھنے کے حوالے سے جو مکروہ لکھا ہے ،اس کے متعلق  محشی اپنی طرف سے یہ ظاہر کریں گے کہ اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے، اور یہی ظاہر بھی ہے۔“(جد الممتار، جلد 3، صفحہ 58، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   قضا نماز شروع کردی کہ بعینہ اسی قضا کی جماعت قائم کی گئی ، تو اس حوالے سے ردالمحتا ر  میں ہے:”إذا شرع في صلاة قضاء ثم شرع الإمام في الأداء فإنه لا يقطع، وإنما حملناه على هذا لأنه إذا شرع في قضاء فرض فأقيمت الجماعة في ذلك الفرض بعينه يقطع  کماجزم به في إمداد الفتاح ‘‘ ترجمہ :  قضانماز شروع کی کہ پھر امام نے ادا شروع کردی ، تو اپنی نماز نہ توڑے۔ ہم نے اسےادا  پر اس لیے محمول کیا ہے کہ اگر  فرض کی قضا شروع کی تھی کہ بعینہ اسی قضا کی جماعت قائم ہوگئی تو اپنی نماز کو توڑکر شامل ہوجائے۔“(رد المحتار، جلد2، صفحہ2 50، دار الکتب العلمیہ)

   فتح اللہ  المعین میں قضا نماز توڑ کر اسی کی قائم شدہ جماعت میں شامل ہونے  کے حوالے سے دوپہلو کو بیان کیا گیا ہے، چنانچہ اس کتاب میں ہے:”   فلو أقيم قضاؤها هل له قطعها ويقتدى مقتضى ما ذكر وه هنا من التعليل باحراز فضيلة الجماعة ان يكون له ذلك لكن سيأتي في قضاء الفوائت و ينبغي ان لا يطلع غيره على قضائه لان التأخير معصية فلا يظهرها‘‘ ترجمہ:اگر اسی قضا کی جماعت قائم ہوئی جسے وہ ادا کررہاتھا، تو کیا وہ اپنی نماز توڑ  کر جماعت میں شامل ہوسکتا ہے۔ تاہم فضیلت ِجماعت حاصل کرنے کی جو علت بیان کی گئی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اس کی اجازت ہے۔ لیکن عنقریب باب قضاء الفوائت میں یہ مسئلہ آئے گا کہ اپنی قضا سے دوسرے کو با خبر نہ کریں ،کہ وقت گزار کر نماز ادا کرنا گناہ ہے، اسے ظاہر نہ کریں۔“ (فتح اللہ  المعين، جلد 1، صفحہ 270،جمعیۃ المعارف)

   اپنی قضا نماز توڑ کراس کی  جماعت میں شامل ہونا، جائز ہے واجب نہیں ، چنانچہ مرا قی الفلاح اور اس كے حاشیہ طحطاوی میں ہے:” إذا شرع المصلي في أداء قضائه منفردا فأقيمت الجماعة فإذا لم يقيد بسجدة قطع واقتدى...قولہ « قضائه» أي قضاء الفرض الذي أقيم لأنه إكمال لها. ولم يبين المصنف حكم هذا القطع والاقتداء وعبارة الدر تفيد الجواز لأنه شبهه بالجائز فقال: يقطعها لعذر إحراز الجماعة كما لو ندت دابته أو فار قدرها الخ ثم قال ويجب القطع لنحو إنجاز غريق‘‘ ترجمہ:نمازی نے تنہا فرض کی قضا  ادا کرنا  شروع کی کہ اسی قضا  کی جماعت قائم ہوگئی، تو اگر ابھی سجدہ نہیں کیا ہے ، تو اسے توڑکر جماعت میں شامل ہوجائے۔علامہ طحطاو ی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں اس کی قضا سے مراد اسی فرض کی قضا ہے جس کی جماعت قائم ہوئی کہ اسے توڑنا اس کا اکمال ہے۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے  یہاں نماز کو توڑ کر اقتدا کرنے کا  حکم بیان نہیں کیا ،البتہ در کی عبارت سے جواز کا افاد ہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے جواز والی صورتوں سےتشبیہ دی ہےکہ فرمایا    :تحصیل جماعت کے عذر کی بنا پر اپنی نماز توڑدے ،جیسا کہ    نمازی کا چوپایہ بھاگ  جائے یا  ہانڈی ابل رہی ہو، تو نماز توڑنے کی اجازت ہے۔ہاں بعض صورتوں میں توڑنا واجب ہے ،  مثلا: ڈوبتے شخص کو بچانے کے لیے۔“ملخصا ( حاشیہ طحطاوی علی  مراقی الفلاح،صفحہ 448، 449، دار الکتب العلمیہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم