Qasr Aur Poori Namaz Parhne Mein Kaun Se Waqt Ka Aitibar Hai?

قصر اور پوری نماز پڑھنے میں کون سے وقت کا اعتبار ہے ؟

مجیب:مفتی ابومحمد  علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر:127

تاریخ اجراء: 13ربیع الثانی1441ھ11دسمبر2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارےمیں کہ میرا گھر سرگودھا ہے۔ مجھے کاروباری سلسلے کی وجہ سے لاہور جانا پڑتا ہے، کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ میں جب لاہور کے لیے سرگودھا سے نکلتا ہوں، تونکلتے نکلتے عشاء کا وقت شروع ہو چکا ہوتا ہے، کئی مرتبہ میں نماز پڑھے بغیر لاہور روانہ ہو جاتا ہوں اور وہاں جاکر نماز ادا کرتا ہوں۔ اس نماز کے متعلق مجھے تشویش ہے کہ میں یہ نماز دو رکعت ادا کروں گا یا مکمل، کیونکہ جب نماز کا وقت شروع ہوا تھا، تو میں مقیم تھا ، پھر میں مسافر ہوگیا، کیونکہ وہاں جا کر مجھےصرف دو تین دن ہی رہنا ہوتا ہے۔ برائےکرم شریعت اسلامیہ کی روشنی میں میری رہنمائی کی جائے کہ میں عشاء مکمل پڑھوں گا یا قصر؟سرگودھا سے لاہور کا فاصلہ ڈیڑھ سو کلو میٹر سے زائد ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ یہ نماز قصر ادا کریں گے، کیونکہ سفر میں دو رکعت یا چار رکعت پڑھنے کے معاملے میں اس وقت کا اعتبار ہوتا ہے، جس وقت میں وہ نماز ادا کررہا ہے کہ وہ مسافر ہے یا مقیم؟ مسافر ہونے کی صورت میں فرضوں کی چار رکعت کے بجائے دو رکعت پڑھی جاتی ہیں اور مقیم ہونے کی صورت میں چار رکعت ادا کی جاتی ہے۔ معاذاللہ عزوجل ! نماز قضا ہو جائے ، تو پھرآخری وقت کا اعتبار کیا جاتا ہے۔پوچھی گئی صورت میں آپ بھی جب نماز ادا کرتے ہیں،  تو مسافر ہوتے ہیں اس لیے آپ فرضوں کی چار رکعت کے بجائے دو رکعت ہی ادا کریں گے۔

   تنویر الابصار و درمختار میں ہے:”(والمعتبر فی تغییر الفرض آخر الوقت فان کان) المکلف( فی آخرہ مسافرا وجب رکعتان والا فاربع)۔ ملخصاً“یعنی فرض تبدیل ہونے کے لئے آخری وقت کا اعتبار کیا جاتا ، لہٰذا اگر مکلف آخری وقت میں مسافر ہو، تواس پر دورکعت پڑھنا واجب ہے، ورنہ چار رکعت پڑھنا لازم ہے۔ )درمختار مع ردالمحتار، جلد2، صفحہ738،مطبوعہ  کوئٹہ(

   والمعتبر فی تغییر الفرض “ کے تحت ردالمحتار میں ہے:”ای من قصر الی اتمام و بالعکس“یعنی قصر سے مکمل نماز کی طرف اور مکمل نماز سے قصر کی طرف۔)ردالمحتار، جلد2، صفحہ738، مطبوعہ کوئٹہ(

   قصر اور مکمل نماز پڑھنے میں کس وقت کا اعتبار ہوگا؟ اس کے متعلق ردالمحتار میں ہے: ”والحاصل ان السبب ھو الجزء الذی یتصل بہ الاداء او الجزء الاخیر ان لم یود قبلہ“یعنی خلاصہ کلام یہ ہےکہ وقت کے جس حصے میں نماز ادا کی جائے، نماز کا اصل سبب وقت کا وہی جزو ہے یا پھر نماز قضا ہونے کی صورت میں آخری وقت نماز کا سبب ہے۔)ردالمحتار، جلد2، صفحہ738،مطبوعہ کوئٹہ(

   فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے: ”اذا کان الرجل مقیما  فی اول الوقت  فلم یصل حتی سافر  فی آخر الوقت  کان علیہ صلاۃ سفر“یعنی اگر کوئی شخص نماز کے ابتدائی وقت میں مقیم ہو، اور وہ نماز پڑھے بغیر مسافر ہو جائے، تو اب اس پر مسافر والی نماز پڑھنا لازم ہے۔)فتاوی تاتار خانیہ، جلد1، صفحہ509، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت(

   بہار شریعت میں ہے:”قصر اور پوری پڑھنے میں آخر وقت کا اعتبار ہے، جبکہ پڑھ نہ چکاہو۔ فرض کرو کسی نے نماز نہ پڑھی تھی ، اور وقت اتنا باقی رہ گیا ہے کہ اَللہُ اَکْبَرْ کہہ لے اب مسافر ہوگیا، تو قصر کرے اور مسافر تھا اس وقت اقامت کی نیت کی ، تو چار پڑھے۔“(بہار شریعت، جلد1، صفحہ749، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم