مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-8772
تاریخ اجراء:03شعبان المعظم1445ھ14فروری2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں
علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قعدہ اخیرہ میں درود
کے بعدایک
سے زیادہ دعائیں
پڑھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قعدہ اخیرہ
میں درود پاک کے بعد
ایک سے زیادہ دعائیں
پڑھ سکتے ہیں،شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں،
بلکہ خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ
دعائیں پڑھنا ثابت ہے،
لیکن جو دعائیں پڑھی
جائیں ان میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ وہ
دعائیں ماثورہ
یعنی قرآن و حدیث سے منقول ہوں، نیز اگر کوئی شخص امام ہو ،تو اُسے اس بات کا
لحاظ رکھنا چاہیے
کہ زیادہ
طویل دعائیں نہ کرے خصوصاً جبکہ اس کی وجہ سے مقتدیوں کو تکلیف ہو، کیونکہ حدیث پاک میں بیماروں ، کمزوروں اور بوڑھے مقتدیوں کی رعایت
کی وجہ سے امام کو نماز میں تخفیف کرنے کا حکم دیا
گیا ہے۔
قعدہ اخیرہ
میں درود پاک کے بعد
ایک سے زیادہ دعائیں
پڑھنا احادیث سے ثابت ہے ، جیسا
کہ صحیح
مسلم کی حدیث
مبارک میں ہے :’’عن أبي هريرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : إذا تشهد أحدكم فليستعذ
بااللہ من أربع
يقول: اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم، ومن عذاب القبر، ومن فتنة المحيا والممات،
ومن شر فتنة المسيح الدجال“ ترجمہ :حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ
جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھ لے ، تو چار چیزوں کے متعلق اللہ سے پناہ طلب کرے ۔اے اللہ میں جہنم اور قبر کے عذاب سے تیری
پناہ چاہتا ہوں اور حیات و
موت کے فتنے اور
مسیح دجال کے فتنہ سے تیری
پناہ چاہتا ہوں ۔(صحیح المسلم ،جلد2 ،صفحہ 93 ، مطبوعہ
دار طوق النجاہ)
خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ
دعائیں پڑھنا
بھی ثابت ہے، جیساکہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ"
المعجم الاوسط"
میں حدیث مبارک نقل فرماتے ہیں:”عن عبد اللہ بن
مسعود قال: كان دعاء النبي صلی اللہ
علیہ وسلم بعد التشهد في الفريضة: اللهم إنا نسألك من الخير كله عاجله وآجله، ما علمنا
منه وما لم نعلم، ونعوذ بك من الشر كله عاجله وآجله، ما علمنا منه وما لم نعلم، اللهم
إنا نسألك ما سألك منه عبادك الصالحون، ونستعيذ بك مما استعاذ منه عبادك الصالحون،
ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار، ربنا إننا آمنا فاغفر لنا
ذنوبنا وكفر عنا سيئاتنا وتوفنا مع الأبرار، ربنا وآتنا ما وعدتنا على رسلك ولا تخزنا
يوم القيامة إنك لا تخلف الميعاد ويسلم عن
يمينه وعن شماله “ترجمہ:حضرت عبد
اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ نبی اکرم
صلی
اللہ علیہ وسلم فرض نماز میں تشہد
کے بعد یہ دعائیں مانگتے
تھے،اے اللہ ہم تجھ سے دنیا اور آخرت
کی تمام بھلائیوں
کا سوال کرتےہیں،ان میں سےجوہم جانتے ہیں یا جونہیں جانتے اور تیری پناہ مانگتے ہیں دنیا اورآخرت
کی تمام برائیوں سے، ان میں سےجوہم جانتے ہیں یا جونہیں جانتے،اے اللہ ہم تجھ سے وہ مانگتے
ہیں جو تیرے نیک
بندوں نے مانگا اورا س چیز سے تیری پناہ مانگتے ہیں،جس سے تیرے نیک بندوں نے پناہ مانگی،اے
اللہ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت
میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا،اے ہمارے رب ہم مؤمن ہیں ہمارے گناہوں کو
بخش دےاور ہماری برائیوں کو مٹا دے اورہمیں نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے،اے ہمارے رب ہمیں وہ عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں
سے وعدہ فرمایااور ہمیں قیامت کےدن رسوا نہ فرمانا،پھر دائیں اور بائیں جانب
سلام پھیر دیتے۔ (المعجم
الاوسط ،جلد07،صفحہ305،رقم
الحدیث7570 ،مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)
فتاوی عالمگیری میں ہے:”فاذا فرغ من الصلاة
على النبي صلى اللہ عليه وسلم يستغفر
لنفسه ولابويه وللمؤمنين والمؤمنات كذا في الخلاصة
ويدعو لنفسه ولغيره من المؤمنين ولا يخص نفسه بالدعاء وهو سنة ثم يقول ربنا آتنا الى
آخره“ترجمہ:پس جب نمازی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھ کے فارغ ہو جائے،تو اپنے لیے، اور اپنے والدین
کے لیے اور تمام مؤمنین اور مؤمنات کےلیے استغفار کرےجیسا
کہ "خلاصہ الفتاوی "میں ہےاور اپنے لیے اور اپنے علاوہ
دوسرے مؤمنین کے
لیے دعا کرے، یہ سنت ہے، پھر ربنا آتنا یہ والی
دعا آخر تک پڑھے۔(فتاوی ھندیہ،جلد01،صفحہ76،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)
قعدہ اخیرہ میں درود پاک کے بعد جو دعائیں پڑھی جائیں، وہ دعائیں ماثورہ
یعنی قرآن و حدیث سے منقول ہوں جیساکہ غنیۃ المتملی مع منیۃ المصلی میں ہے:”ویستغفر لنفسہ ولوالدیہ ولجمیع المؤمنین والمؤمنات
ویدعو بالدعوات الماثورۃ “ترجمہ:اور اپنے لیے اپنے والدین
کے لیے اور تمام مؤمنین اور مؤمنات کے
لیے استغفار کرے اور ماثورہ
دعائیں پڑھے۔(منیۃ المصلی مع غنیۃ المتملی،جلد
2 ،صفحہ199،مطبوعہ مکتبۃ
اسلامیہ)
علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’دعا بالادعیۃ المذکورۃ
فی القرآن والسنۃ لا بما یشبہ کلام الناس“ترجمہ:جو دعائیں قرآن
وسنت میں ذکر کی گئی ہیں وہ پڑھے
،لوگوں کے کلام کے مشابہ الفاظ سے دعا نہ مانگے۔(در مختار مع ردالمحتار،جلد 2،صفحہ289،مطبوعہ کوئٹہ)
جو شخص امام ہو، تو اُسے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ طویل دعاؤں کی وجہ سے مقتدیوں کو تکلیف نہ ہو، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اذا صلى احدكم للناس فليخفف فان منهم الضعيف والسقيم والكبير واذا صلى احدكم لنفسه فليطول ما شاء“ترجمہ:جب تم
میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے ،کیونکہ جماعت میں کمزور، بیمار اور بوڑھے(سب
ہی) ہوتے ہیں، اورجب
اکیلا پڑھے، تو جس قدر
جی چاہے ، نماز کو طول
دے سکتا ہے۔(صحیح
البخاری، جلد1، صفحہ142، مطبوعہ
دار طوق النجاۃ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟