مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:
Nor-13042
تاریخ اجراء: 29ربیع الاول1445 ھ/16اکتوبر 2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اگر نمازی قعدہ
اخیرہ میں ہو ، اسے ریح
کی شدت ہوجائے اور وقت میں وسعت بھی ہو کہ وہ وضو کرکے دوبارہ
نماز وقت ہی میں ادا کرسکتا
ہے ۔ کیا اس صورت میں
وہ نمازی اسی کیفیت میں نماز مکمل کرکے سلام پھیردے
یا پھر اس پر اسی وقت نماز کو توڑنا ضروری ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نمازی اگر قعدہ اخیرہ میں تشہد کی
مقدار بیٹھ چکا ہو، اب فقط سلام
پھیرنا ہی باقی رہ گیا اور اُسے
ریح وغیرہ کی شدت پیدا
ہوجائے، تو اس صورت میں نمازی سلام پھیر کر اپنی نماز کو
مکمل کرلے۔
اگر قعدہ اخیرہ کی مقدار ابھی تشہد
پورا نہ ہوا ہو یعنی التحیات پوری نہ ہوئی ،
اسی دوران ایسی کیفیت پیدا ہوجائے تو وقت
میں وسعت ہونے کی صورت میں نماز کو توڑنا واجب ہے، کیونکہ
فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق پاخانہ پیشاب وغیرہ
کی شدت خواہ نماز شروع کرنے سے پہلے ہو یا نماز شروع کرنے کے بعد ، بہر
صورت دورانِ نماز یہ
کیفیت موجود ہواور وقت
میں وسعت بھی ہو تو اُس نماز کو توڑنا واجب ہوتا ہے۔ اگر
نمازی نے اسی کیفیت میں نماز کو پورا کر لیا
تو ایسا نمازی گنہگار بھی ہوگا اور اس کی نماز بھی مکروہِ تحریمی و
واجب الاعادہ ہوگی۔
البتہ یہ مسئلہ ضرور ذہن نشین رہے کہ
پوچھی گئی صورت میں نمازی حاجت سے فارغ ہوکر نئے سرے
سے نماز ادا کرے گا ، سابقہ نماز پر بناء نہیں کرسکتا کہ بناء
کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط حدث کا سماوی
ہونا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں حدث سماوی نہ ہونے کی وجہ سے بناء
جائز نہیں۔
تفصیلی جزئیات:
قعدہ اخیرہ کے بعد خروجِ بصنعہ سے نماز کا فرض پورا
ہوتا ہے۔ جیسا کہ بحر الرائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں
مذکور ہے:”(والخروج بصنعه) أي
الخروج من الصلاۃ قصداً من المصلي بقول أو عمل ينافي الصلاة بعد تمامها فرض
۔“ترجمہ: ” خروجِ بصنعہ فرض ہے، اس سے مراد نمازی کا نماز کے تمام ارکان ادا کرنے کے
بعد اپنے کسی منافی نماز قول یا عمل کے ذریعے سے قصداً نماز
سے باہر ہونا ہے ۔“(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، ج
01، ص 311، مطبوعہ بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے:”خروج بصنعہ:یعنی
قعدۂ اخیرہ کے بعد سلام و کلام وغیرہ کوئی ایسا
فعل جو منافی نماز ہو بقصد کرنا، مگر سلام کے علاوہ کوئی دوسرا
منافی قصداً پایا گیا، تو نماز واجب الاعادہ ہوئی۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 516،
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
پاخانہ، پیشاب وغیرہ کی شدت کے وقت ادا
کی گئی نماز مکروہِ تحریمی ہوجاتی ہے۔
جیسا کہ فتح القدیر میں ہے:”تكره مع مدافعة الأخبثين سواء كان بعد الشروع
أو قبله “یعنی پاخانہ
اور پیشاب کی شدت کے وقت نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے
خواہ یہ کیفیت نماز شروع کرنے کے بعد پیدا ہوئی ہو
یا پہلے۔(فتح
القدیر، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 418، دار الفکر، بیروت)
فتاوٰی عالمگیری،
تبیین الحقائق، بنایہ شرح ہدایہ، حاشیہ
طحطاوی علی مراقی الفلاح
وغیرہ کتبِ فقہیہ میں کچھ یوں مذکور ہے:”والنظم للاول“ويكره۔۔۔و أن يدخل
في الصلاة وهو يدافع الأخبثين وإن شغله قطعها وكذا الريح وإن مضى
عليها أجزأه وقد أساء “یعنی
پاخانہ یا پیشاب کی شدید حاجت محسوس ہونے کی حالت
میں نماز میں داخل ہونا مکروہِ تحریمی ہے اگر نماز شروع
کردی تو اسے توڑدے یہی حکم ریح کا بھی ہے۔ اگر
اس نے نماز جاری رکھی تو نماز ادا ہوجائے گی لیکن اس نے
برا کیا۔(فتاوٰی
عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 107،مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)
بہار ِ شریعت میں ہے :” جس بات سے دل بٹے
اور دفع کر سکتا ہو اسے بے دفع کيے ہر نماز مکروہ ہے مثلاً پاخانے یا
پیشاب یا ریاح کا غلبہ ہو۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص457، مکتبۃ
المدینہ، کراچی)
مزید ایک دوسرے مقام پر مفتی امجد
علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”شدت کا پاخانہ
پیشاب معلوم ہوتے وقت،یا غلبہ
ریاح کے وقت نماز پڑھنا، مکروہ تحریمی ہے ۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص625،
مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ہر وہ نماز جو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا
کی گئی اس کا اعادہ واجب ہے۔ جیسا کہ درمختار میں ہے :”کذا کل صلاۃ ادیت مع
کراھۃ التحریم تجب اعادتھا ۔“یعنی اسی طرح ہر وہ نماز جسے کراہت تحریمی کے
ساتھ ادا کیا گیا ہو، اس کا اعادہ بھی واجب ہے۔
(کذا کل صلاۃ۔۔۔۔الخ) کے تحت ردالمحتار
میں ہے:”الظاهر انه يشمل نحو
مدافعة الاخبثين مما لم يوجب سجودا اصلاً“یعنی ظاہر یہ ہے کہ وجوب اعادہ کاحکم اس صورت کو
بھی شامل ہوگا جس میں اصلاً
سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، مثلاً
شدت پیشاب اور پاخانہ کے وقت
نماز پڑھنا ۔(رد
المحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص457، مطبوعہ بیروت)
بناء کی شرائط
میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ حدث سماوی
ہو، قصداً حدث کی صورت میں اُسی نماز پر بناء کرنا ، جائز
نہیں ۔ جیسا کہ بدائع الصنائع وغیرہ کتبِ فقہیہ
میں ہے :”وأما شرائط جواز
البناء۔فمنها الحدث السابق فلا يجوز البناء في الحدث العمد ؛ لأن جواز
البناء ثبت معدولا به عن القياس بالنص والإجماع، وكل ما كان في معنى المنصوص
والمجمع عليه يلحق به وإلا فلا، والحدث العمد ليس في معنى الحدث السابق ؛ لوجهين :
أحدهما أن الحدث السابق مما يبتلى به الإنسان فلو جعل مانعا من البناء لأدى إلى
الحرج ولا حرج في الحدث العمد ؛ لأنه لا يكثر وجوده ۔“یعنی بناء جائز ہونے
کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ حدث لاحق ہو چکا ہو، پس قصداً حدث کی صورت میں بناء
جائز نہیں، کیونکہ بناء کا جواز خلافِ قیاس نص اور اجماع سے
ثابت ہے اور ہر وہ صورت جو منصوص اور مجمع علیہ کے معنی میں ہو تو
بناء کے احکام اسی صورت کو لاحق ہوں گے، اس کے علاوہ صورت کو لاحق نہ ہوں گے۔ اور
حدثِ عمد دو وجوہات کی بنا پر نماز میں لاحق ہونے والے حدث کے حکم
میں نہیں۔ ان میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ نماز
میں لاحق ہونے والا حدث عام طور پر
انسانوں کو لاحق ہو جاتا ہے ، اگر اسے
مانع بناء قرار دیں تو یہ بات
حرج کی طرف لے جائے گی اور عمداً حدث میں حرج نہیں کیونکہ
یہ کثیر الوجود
نہیں۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 220،
دار الكتب العلميۃ، بیروت)
بہار ِ شریعت میں ہے :”اگر وہ حدث سماوی
نہ ہو، خواہ اس مُصلّی کی طرف سے ہو کہ قصداً اس نے اپنا وضو توڑ
دیا ۔۔۔ خواہ دوسرے کی طرف سے ہو۔۔۔۔۔تو
ان سب صورتوں میں سرے سے پڑھے، بنا نہیں کرسکتا۔ “(بہارِ شریعت، ج 01، ص596،
مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
مزید تھوڑا آگے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ
نقل فرماتے ہیں:” جس موقع پر بنا جائز ہے وہاں استخلاف صحیح ہے اور
جہاں بنا صحیح نہیں استخلاف بھی صحیح نہیں۔ ۔۔۔۔۔اگر
شدّت سے پاخانہ پیشاب معلوم ہوا کہ نماز پوری نہیں کرسکتا، تو
استخلاف جائز نہیں۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص602-599، مکتبۃ المدینہ، کراچی،
ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟