Qada Akhira Bhoolny Ki Soorat Mein Kya Sajda Sahw Kifayat Kere Ga ?

قعدہ اخیرہ بھولنے کی صورت میں کیا سجدہ سہو کفایت کرے گا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12217

تاریخ اجراء:        02 ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/02جون 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازی اگر فرض نماز میں قعدہ اخیرہ کیے بغیر ہی کھڑا ہو جائے اور تیسری یا پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کرلے،  تو کیا اس صورت میں اسے وہ نماز نئے سرے سے پڑھنا ہوگی؟ یا پھر سجدہ سہو کرنا ہوگا؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً تو یہ مسئلہ ذہن نشین رہے کہ نماز میں سجدہ سہو اس وقت واجب ہوتا ہے جب نمازی واجباتِ نماز میں سے کسی واجب کو بھولے سے ترک کردے، ہر غلطی کی تلافی سجدہ سہو سے نہیں ہوتی ۔

   نماز میں قعدہ اخیرہ کرنا چونکہ فرض ہے لہذا صورتِ مسئولہ میں  نماز کا یہ فرض چھوٹ جانے پر دو رکعت والی نماز میں تیسری، چار رکعت والی نماز میں  پانچویں اور  مغرب کی نماز میں چوتھی رکعت کا  سجدہ کرنے سے پہلے پہلے واپس آکرسجدہ سہو کرکے اس غلطی کی تلافی کی جا سکتی تھی۔ لیکن صورتِ مسئولہ میں نمازی نے چونکہ ایسا نہیں کیا،  لہذا اس صورت میں اس کی وہ فرض نماز ہی باطل ہوگئی اب یہ نماز نفل شمار ہوگی اور یہ  فرض نماز نئے سرے سے اس نمازی کو ادا کرنا ہوگی ۔

   یاد رہے کہ اگر کبھی ایسا ہوجائے کہ نمازی قعدہ اخیرہ کیے بغیر ہی کھڑا ہوجائے اور اگلی رکعت کا سجدہ بھی کرلے تو اس صورت میں اس نمازی کے لیے حکمِ شرع یہ ہے کہ مغرب کے علاوہ دیگر نمازوں میں مزید ایک رکعت ملالے تاکہ شفع مکمل ہوجائے اور طاق رکعت باقی نہ رہے، لیکن یہ پوری نماز نفل شمار ہوگی اور وہ فرض نمازی کو  نئے سرے سے ادا کرنا ہوں گے۔ البتہ اصح قول کے مطابق اس صورت میں نمازی سجدہ سہو نہیں کرے گا۔ کہ یہاں تو فرض ہی باطل ہو گئے ہیں سجدہ سہو سے فرض کی واپسی تو ممکن نہیں ہے لھذا اس کی حاجت بھی نہیں ہے ۔

   نمازی قعدہ اخیرہ کیے بغیر کھڑا ہوجائے اور اگلی رکعت کا سجدہ بھی کرلے تو اس صورت میں فرض باطل ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ غنیۃ المستملی میں ہے:”رجل صلی الظھر ونحوھا خمسا بان قید الخامسۃ بالسجدۃ ولم یقعد علی رأس الرابعۃ بطلت فرضیتہ ای فرضیۃ صلوتہ“ ترجمہ: ”اگر کوئی شخص  ظہر، عصر یا عشاء کی نماز میں پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا جبکہ اس نے چوتھی پر قعدہ نہیں کیا تھا۔ اب اس نے پانچویں کا سجدہ کرلیا تو اس کے فرض باطل ہوجائیں گے۔“(غنیۃ المستملی، فرائض الصلاۃ، السادس: القعدۃ الاخیرۃ، ص253، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ  فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :”قعدہ اخیرہ بھول کر زائد رکعت کے لئے کھڑا ہوا تو جب تک اس رکعتِ زائدہ کا سجدہ نہیں کیا ہے بیٹھ جائے اور التحیات پڑھ کر سجدہ سہو کرے، اور اگر اس نے رکعتِ زائد ہ کا سجدہ کرلیا تو اب فرض باطل ہوگئے  پھرسے پڑھے۔(فتاوٰی رضویہ،ج08، ص216، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   زائد رکعت کا سجدہ کرنے کی صورت میں علاوہ مغرب کے دیگر نمازوں میں ایک رکعت مزید ملالے تاکہ شفع مکمل ہوجائے مگر اصح قول کے مطابق سجدہ سہو نہ کرے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:(ولو سها عن القعود الاخير عاد ما لم يقيدها بسجدۃ وإن قيدها) بسجدة عامدا أو ناسيا أو ساهيا أو مخطئا (تحول فرضه نفلا برفعه۔۔۔۔وضم سادسة) ولو في العصر والفجر (إن شاء ولا يسجد للسهو على الاصح) لان النقصان بالفساد لا ينجبریعنی اگر نمازی چار رکعت والی فرض نماز میں قعدہ اخیرہ کیے بغیر بھولے سے کھڑا ہوجائے تو جب تک اس زائد رکعت کو سجدے سے مقید نہ کیا ہو لوٹ آئے، اور اگر اس نے زائد رکعت کو سجدے سے مقید کرلیا خواہ وہ سجدہ اس نے جان بوجھ کر کیا ہو یا  بھولے سےکیا ہو یا غلطی سے کیا ہو بہر صورت اس کی وہ فرض نماز سجدے سے سر اٹھاتے ہی نفل کی طرف پھر جائے گی۔۔۔۔اب وہ نمازی چاہے تو اس کے ساتھ چھٹی رکعت بھی ملا لے اگر چہ عصر اور فجر کی نماز میں ایسا ہوا ہو۔ ہاں! اس صورت میں اصح قول کے مطابق سجدہ سہو نہیں کرے گا، کیونکہ نماز کے فساد سے ہونے والا نقصان سجدہ سہو سے پورا نہیں ہوسکتا۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت  ردالمحتار میں ہے :في الإمداد قال: وسكت عن المغرب لأنها صارت أربعا فلا يضم فيها۔۔۔۔ (قوله لأن النقصان) أي الحاصل بترك القعدة لا ينجبر بسجود السهو۔“ترجمہ:  ”امداد میں مذکور ہے کہ اس صورت میں نمازی مغرب کی نماز میں مزید کوئی رکعت نہ ملائے کہ اس کی وہ چار رکعات ہوچکی ہیں۔۔۔۔(قوله لأن النقصان)یعنی جو نقصان قعدے کو چھوڑنے سے حاصل ہوا ہے اب اس  نقصان کو سہو کے سجدوں سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ “(ردالمحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلوۃ ، ج02، ص667-664، کوئٹہ، ملخصاً و ملتقطاً)

   حلبۃ المجلیٰ فی شرح المنیۃ المصلیٰ میں اسی صورت  کے حوالے سے مذکور ہے:”(و ان قید الخامسۃ بالسجدۃ بطل فرضہ، و تحولت صلاتہ نفلاً، و علیہ ان یضم الیھا رکعۃً سادسۃً، و یسجد للسھو) یعنی عندھما ایضاً، و الاصح انہ لا یسجد لان النقصان بالفساد لا یجبر بالسجود، ذکرہ الامام التمرتاشی۔ترجمہ:  ”نمازی اگر قعدہ اخیرہ کیے بغیر پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے اور اس زائد رکعت کو سجدے سے مقید کردے تو اس صورت میں اس کے فرض باطل ہوجائیں گے اور اس کی وہ فرض نماز نفل میں تبدیل ہوجائے گی، اب اس کے لیے حکم ہے کہ اس کےساتھ چھٹی رکعت بھی ملالے اور سجدہ سہو بھی کرے یعنی شیخین کے نزدیک بھی سجدہ سہو کرنے کا حکم ہے، لیکن اصح قول کے مطابق نمازی سجدہ سہو نہیں کرے گا، کیونکہ جو نقصان فساد کے سبب حاصل ہوا ہے اب اس نقصان کو سہو کے سجدوں کے ذریعے پورا نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ امام تمرتاشی علیہ الرحمہ نے اسے ذکر فرمایا ہے۔ “(حلبۃ المجلیٰ فی شرح منیۃ المصلیٰ، فصل فی سجدۃ السہو،  ج02، ص455-453، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   قعدہ اخیرہ کیے بغیر نمازی اگلی رکعت کا سجدہ کردے تو وہ فرض نفل ہوجائیں گے۔ جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:”قعدۂ اخیرہ بھول گیا تو جب تک اس رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو لوٹ آئے اور سجدۂ سہو کرے ۔۔۔۔ اور اگر اس رکعت کا سجدہ کر لیا تو سجدہ سے سر اٹھاتے ہی وہ فرض نفل ہوگیا لہٰذا اگر چاہے تو علاوہ مغرب کے اور نمازوں میں ایک رکعت اور ملالے کہ شفع پورا ہو جائے اور طاق رکعت نہ رہے اگرچہ وہ نماز فجر یا عصر ہو مغرب میں اور نہ ملائے کہ چار پوری ہوگئیں۔ “(بہار شریعت،ج01، ص712، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سجدہ سہو سےفقط  واجب کی تلافی ہوتی ہے۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے:”واجبات نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے ليے سجدۂ سہو واجب ہے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 708، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم