Peshab Ke Baad Qatre Aane Wale Ka Imamat Karna

جسے پیشاب کے بعد کچھ دیر قطرے آتے ہوں، اس کا امامت کروانا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12110

تاریخ اجراء: 16رمضان المبارک1443ھ/18اپریل2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید میں امامت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں، مگر اسے پیشاب کے بعد کچھ دیر کے لیے ایک دو قطرے آتے ہیں اس کے بعد اسے قطرے نہیں آتے۔ تو کیا اس صورت میں زید شرعی معذور ہوگا؟ کیا وہ لوگوں کی امامت کروا سکتاہے؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

سائل: علی رضا(via،میل)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     اولاً تو یہ یاد رہے کہ امامت کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط امام کا شرعی معذور نہ ہونا بھی ہے،لہذا  شرعی معذور تندرست لوگوں کی امامت نہیں کرواسکتا۔ البتہ شرعی معذور ہونا اس وقت  ثابت ہوتا ہے کہ  جب کسی شخص کو وضوتوڑ دینے والاکوئی مرض اس طرح لاحق ہوجائے کہ حقیقی طور پر یا پھر حکمی طور پر ایک نماز کا پورا وقت اس طرح گزر جائے کہ اسے وضو کرکے فرض نماز کی ادائیگی کا موقع بھی نہ مل سکے، اس  کی مکمل تفصیل کتبِ فقہ میں مذکور ہے۔

     اس تمہید سے یہ بات واضح ہوئی کہ صورتِ مسئولہ میں ایک دو قطرے آنے کے بعد دوبارہ قطرے نہ آنے کی صورت میں  زید شرعی معذور نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں دوبارہ قطرے آنے سے بلاشبہ زید  کا وضو ٹوٹ جائے گا نیز  جس جگہ یہ نجس قطرے لگیں گے وہ جگہ بھی ناپاک ہوگی، اس صورت میں ناپاک  جگہ کو پاک کرکے نئے سرے سے وضو کرکے زید لوگوں کی امامت کروا سکتاہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔

     عذرِ شرعی کب ثابت ہوتا ہے؟ اس حوالے سے فتاوی عالمگیری میں مذکور ہے :”شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لا يثبت ما لم يستوعب الوقت كله“یعنی پہلی مرتبہ عذر ثابت ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ ایک نماز کے  پورے وقت میں  وہ عذر باقی رہے اور یہی بات زیادہ ظاہر ہے، جیسا کہ عذر کا منقطع ہونا بھی اسی  وقت ثابت ہوتا ہے جب نماز کے ایک پورے وقت میں وہ عذر منقطع رہے۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب الطھارۃ، ج01،ص40-41،مطبوعہ پشاور)

     بہار شریعت میں ہے:”ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے۔ “(بہار شریعت  ، ج01، ص385، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

     قطرے آنا بند ہوجائیں تو شرعی معذور نہیں، ایسا شخص ہر حدث کے بعد وضو کرکےہر  ایک کی امامت کرواسکتا ہے۔ جیسا کہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”الحمدللّٰہ وحدہ اذاکان احتشاؤہ یردمابہ کماوصف فی السؤال فقدخرج عن حد العذر والتحق بالاصحاء یتوضأ لکل حدث ویغسل کل نجس ویؤم کل نفس ولایعذر فی ترک الاحتشاء بل ھو فریضۃ علیہ کفریضۃ الصلاۃ ۔  یعنی:تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو یکتا ہے۔ اگر رُوئی رکھنے سے اس کے قطرے ٹپکنے بند ہوجاتے ہیں جیسا کہ سوال میں بیان کیا تو وہ معذور کی حد سے نکل گیا اور صحیح افراد کے ساتھ شامل ہوگیا۔ ہر حدث (اصغر) کے بعد وضو کرےگا اور جہاں نجاست لگی ہو اسے دھوئے گا اور ہر ایک کی امامت کراسکتا ہے اس سے رُوئی نہ رکھنے کا عذر قبول نہ ہوگا بلکہ نماز کی طرح روئی رکھنا بھی اس پر ضروری  ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج04،ص368،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم