Pehli Rakat Ke Baad Attahiyat Me Baith Gaye Tu Namaz Ka Hukum

پہلی رکعت کے بعد قعدے میں بیٹھ گیا تو نماز کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7735

تاریخ اجراء:      25 جمادی الاخری 1443ھ/29 جنوری 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص پہلی رکعت کے دو سجدوں کے بعد دوسری رکعت کے قیام کے لیے کھڑا ہونے کی بجائے قعدہ میں بیٹھ گیا اور ”التحیات“شروع کر دی، ابھی صرف ”التحیات للہ“ تک پہنچا، تو یاد آیا کہ میں نے دوسری رکعت پڑھی ہی نہیں،  چنانچہ وہ فوراً  تکبیر کہتا ہوا کھڑا ہو گیا اور آخر میں سجدہ سہو کر کے نماز مکمل کر لی۔ کیا اُس پر سجدہ سہو واجب تھا اور کیا مذکورہ صورت میں اُ س کی نماز ہو گئی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کوئی شخص پہلی یا  تیسری رکعت کے بعد دوسری یا چوتھی رکعت کے قیام کے لیے کھڑا  نہ ہوا، بلکہ  بھول کر قعدہ میں بیٹھ گیا  اور   تین بار ”سبحان اللہ “ کہنے کی مقدار بیٹھا رہا، پھر یاد آنے پر فوراً کھڑا ہو گیا ،تو فرض یعنی قیام میں تاخیر پائی گئی، لہذا اُس پر سجدہ سہو واجب ہے اور اگر تین بار”سبحان اللہ  کہنے  کی مقدار کے دورانیہ سے کم بیٹھا اور  یاد آنے پر فوراً کھڑا ہو گیا، تو سجدہ سہو واجب نہیں۔لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب نمازی نے  صرف التحیات للہتک ہی   پڑھا تھا اور یاد آتے ہی کھڑا ہو گیا، تو مقدارِ رکن یعنی تین بار ”سبحان اللہ “ کہنے کی مقدار نہیں بیٹھا، لہذا اُس پر سجدہ سہو واجب  نہ تھا، اب جبکہ آخر میں اُس نے  اپنے فہم کے مطابق سجدہ سہو کر لیا ،تو اِس صورت میں بھی نماز درست ہو جائے گی۔اعادہ کی حاجت نہیں ہے۔

   علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) واجباتِ نماز بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ترک قعود قبل ثانیۃ او رابعۃ‘‘ ترجمہ:دوسری یا چوتھی رکعت سے  پہلے  قعدہ نہ کرنا  (واجب ہے۔) (درمختار مع ردالمحتار ، جلد2، صفحہ201، مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ عابد سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1257ھ/1841ء)مذکورہ عبارت کی شَرْح میں لکھتےہیں:’’ترک قعود قبل ثانیۃ من الصلوات مطلقا ثنائیۃ کانت او ثلاثیۃ اورباعیۃ فلو قعد بعد السجود الثانی من الرکعۃ الاولیٰ لزمہ سجود السھو لتاخیر الفرض وھو القیام الی الثانیۃ‘‘ ترجمہ:تمام نمازوں میں دوسری رکعت سے پہلے قعدہ  نہ کرنا واجب ہے، خواہ وہ نماز دو رکعتی،تین رکعتی یا چار رکعتی ہو۔ لہذا اگر نمازی  پہلی رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد بیٹھا، تو اُس پر سجدہ سہو واجب ہے، کیونکہ فرض میں تاخیر پائی گئی اور وہ فرض دوسری رکعت کے قیام کے لیے کھڑا ہونا تھا۔(طوالع الانوار  (المخطوط )، الجزء الثالث من المجلد الاول، صفحہ 608، رقم المخطوط424، موجود فی المکتبۃ الازھر)

   یہ تاخیر اُس وقت موجِبِ سہو ہو گی، جب تین تسبیح کی مقدار ہو، چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) نماز کے واجبات بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں:’’دو فرض یا دو واجب  یا واجب فر ض کے درمیان  تین تسبیح کی قدر  وقفہ نہ ہونا(واجب ہے، لہذا اگر سہواً وقفہ ہوا، تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔) (بھار شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ519،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اَشْرَف الفقہاء، خلیفہ مفتی اعظم ہند مولانا مفتی محمد مجیب اشرف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1441ھ/2020ء)  ”سجدہ سہو“ کے احکامات پر مشتمل تفصیلی کتاب”تنویر الضحو  لسجدۃ السہو“ میں لکھتےہیں:کوئی شخص پہلی یا تیسری رکعت میں بھول کر بیٹھ گیا اور تین بار ”سبحان اللہ“ کہنےکی مقدار سےکم بیٹھ کر اٹھا، تو سجدہ سہو واجب نہیں ہے اور اگر تین بار  کہنے کی مقدار تاخیر کر کے اٹھا، تو سجدہ سہو واجب ہے۔‘‘ (تنویر الضحو لسجدۃ السھو، صفحہ 86، ناشر نوری میڈیکل، ناگپور )

   سجدہ سہو واجب نہ تھا لیکن نمازی نے کر لیا، تو نماز درست ہو جائے گی، چنانچہ امام اہلسنت  ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’بےحاجت سجدہ سہو نماز میں زیادت اور ممنوع ہے ،مگر نماز ہوجائے گی۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد6،صفحہ328،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   نوٹ : یہ مسئلہ اکیلے نماز پڑھنے والے شخص کے لیے ہے ، امام نے اگر احتیاطی طور پر سجدہ سہو کر لیا ، تو اس کا مسئلہ جدا ہے یعنی : امام نے اگر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس پر سجدہ سہو لازم ہے ، سجدہ سہو کر لیا ، توامام کے ساتھ شروع سے شریک مقتدی اورخودامام کی نمازدرست ہوجائے گی ، جبکہ مسبوق ( جو پہلی رکعت کے بعد شامل ہوا ، اس ) مقتدی نے اس سجدہ سہومیں امام کی پیروی کی اوربعدمیں امام کی غلطی کاعلم ہوا ، تواس کی نمازفاسدہوگی ۔

   سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے امام کے غلط سجدہ سہوکرنے کامسئلہ پوچھا گیا ، توجواباً ارشادفرمایا : ” امام و مقتدیانِ سابق کی نماز ہوگئی جو مقتدی اس سجدہ سہو میں جانے کے بعد ملے ان کی نماز نہیں ہوئی کہ جب واقع میں سہونہ تھا دہنا سلام کہ امام نے پھیرا ختمِ نماز کا موجب ہوا یہ سجدہ بلا سبب لغو تھا تو اس سے تحریمہ نماز کی طرف عودنہ ہوا اور مقتدیان مابعد کو کسی جزء امام میں شرکت امام نہ ملی لہذا ان کی نماز نہ ہوئی ولہذا اگر سجدہ سہو میں مسبوق اتباع امام کے بعد کو معلوم ہو کہ یہ سجدہ بے سبب تھا اس کی نماز فاسد ہوجائے گی کہ ظاہر ہوا کہ محلِ انفراد میں اقتدا کیا تھا، ہاں اگر معلوم نہ ہوا تو اس کیلئے حکم فساد نہیں کہ وہ حال امام کو صلاح وصواب پر حمل کرناہی چاہئے۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج8،ص185،رضاؤنڈیشن لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم