مجیب:ابو حمزہ محمد حسان عطاری
مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0457
تاریخ اجراء:14جمادی الاولیٰ1446ھ/16 نومبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ نماز میں پہلی اورتیسری رکعت میں جب دوسرا سجدہ کرلیا جائے،تو کچھ دیر بیٹھ کر پھر کھڑا ہونا چاہیے یا سیدھا کھڑا ہوجانا چاہیے؟ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے کون سا طریقہ ثابت ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا سجدہ سے قیام کی طرف اٹھنے کا طریقہ یہی تھا کہ آپ درمیان میں بیٹھے بغیر سیدھے کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور یہی صحابۂ کرام علیہم الرضوان وتابعین رحمہم اللہ تعالی کا معمول رہا ہے۔ پہلی رکعت اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے سیدھا کھڑے ہونے سے پہلے کچھ بیٹھنا جلسۂ استراحت کہلاتا ہےاور احناف کے نزدیک یہ بلا عذر مکروہِ تنزیہی و خلافِ سنت ہے،لہذا اس سے بچنا بہتر ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے جہاں جلسۂ استراحت ثابت ہے، تو وہاں عذر یعنی عمر مبارک کے زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ عمل ثابت ہے۔ نیز جہاں نماز میں دو ارکان کے مابین جلسہ یا قومہ مسنون ہوتا ہے،وہاں کوئی نہ کوئی ذکر بھی مسنون ہوتا ہے،جلسۂ استراحت کے لیے ایسا کوئی ذکر مسنون نہیں،جو اس کے سنت نہ ہونے کی دلیل ہے۔
سنن ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:”قال:كان النبی صلى اللہ عليه وسلم ينهض فی الصلاة على صدور قدميه: حديث أبی هريرة عليه العمل عند أهل العلم: يختارون أن ينهض الرجل فی الصلاة على صدور قدميه“ترجمہ:فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نماز میں اپنے قدموں کی انگلیوں پر(زور دیتے ہوئے) قیام کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔(امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث پر ہی اہل علم کا عمل ہےکہ وہ اس بات کو اختیار کرتے ہیں کہ آدمی نماز میں اپنے قدموں کی انگلیوں پر(زور دیتے) ہوئے کھڑا ہو۔(سنن الترمذی، جلد2، حدیث288، صفحہ80،مطبوعہ مصر)
امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی السنن الکبری میں روایت کرتے ہیں:”عن عبد الرحمن بن يزيد قال:رمقت ابن مسعود فرأيته ينهض على صدور قدميه، ولا يجلس إذا صلى فی أول ركعة حين يقضی السجود“ ترجمہ:حضرت عبد الرحمن بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کَن اَنکھیوں سے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ جب آپ پہلی رکعت کے دونوں سجدے مکمل کر لیتے تھے تو بیٹھے بغیر اپنے قدموں کی انگلیوں پر کھڑے ہوتے تھے۔(السنن الکبری، جلد2،حدیث2764،صفحہ180،دار الكتب العلميہ)
امام ابو بکر ابن ابی شیبہ علیہ الرحمۃ(متوفی235ھ) نے متعدد صحابہ وتابعین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا یہی طریقہ کار ذکر کیا ہے کہ وہ بغیر بیٹھے ہی دوسری اور چوتھی رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔ ان میں تقریباً کی اسانید صحیح اور حسن ہیں،ملاحظہ فرمائیں۔
(1)’’عن عبيد بن أبي الجعد قال:كان علي ينهض في الصلاة على صدور قدميه‘‘ترجمہ:عبید بن ابو الجعدکہتے ہیں:حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز میں اپنے قدموں کی انگلیوں کے بل کھڑے ہوجاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد3،حدیث4021،صفحہ373،مطبوعہ ریاض)
(2)’’عن عمارة عن عبد الرحمن بن يزيد قال:كان عبد اللہ ينهض فی الصلاة على صدور قدميه‘‘ ترجمہ:عبد الرحمن بن یزید کہتے ہیں: حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نماز میں اپنی انگلیوں کے بل کھڑے ہوجاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد3،حدیث4023،صفحہ372)
(3)’’عن الأعمش عن خيثمة عن ابن عمر قال:رأيته ينهض في الصلاة على صدور قدميه‘‘ترجمہ: امام اعمش،خیثمہ سے راوی وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے آپ رضی اللہ عنہ کو نماز میں انگلیوں کے بل کھڑے ہوتے دیکھا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد3،حدیث4024،صفحہ373)
(4)’’عن محمد بن عبد اللہ قال:كان ابن أبي ليلى ينهض في الصلاة على صدور قدميه‘‘ترجمہ: حضرت محمد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضرت ابن ابی لیلی رضی اللہ عنہ نماز میں انگلیوں کے بل کھڑے ہوتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد3،حدیث4025،صفحہ373)
(5)’’عن عيسى بن ميسرة عن الشعبی: أن عمر وعليا وأصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كانوا ينهضون فی الصلاة على صدور أقدامهم‘‘ترجمہ:حضرت عیسی بن میسرہ علیہ الرحمۃ حضرت امام شعبی علیہ الرحمۃ سے راوی کہ حضرت عمر اور مولیٰ علی اور حضور علیہ السلام کے دیگرصحابہ نماز میں اپنی انگلیوں کے بل قیام کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، جلد3، حدیث4026، صفحہ373)
(6)’’عن وهب بن كيسان قال:رأيت ابن الزبير إذا سجد السجدة الثانية قام كما هو على صدور قدميه‘‘ترجمہ:وہب بن کیسان کہتے ہیں:میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ جب آپ دوسرا سجدہ کرتے تو ویسے ہی اپنے قدموں کی انگلیوں کے بل کھڑے ہوجاتے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد3، حدیث4027، صفحہ373)
(7)’’عن نافع عن ابن عمر: أنه كان ينهض فی الصلاة على صدور قدميه‘‘ترجمہ:حضرت نافع رضی اللہ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہما نماز میں قدموں کی انگلیوں کے بل کھڑے ہوجاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد3،حدیث4029،صفحہ374)
(8)’’عن إبراهيم قال:كان ابن مسعود في الركعة الأولى والثالثة لا يقعد حين يزيد أن يقوم حتى يقوم‘‘ترجمہ:حضرت ابراہیم علیہ الرحمۃ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ پہلی اور تیسری رکعت میں جب کھڑا ہونا چاہتے تو بیٹھتے نہ تھے حتی کہ آپ(یوں ہی) کھڑے ہوجاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد3،حدیث4030،صفحہ374)
(9)’’عن الزهری قال:كان أشياخنا لا يمايلون يعنی:إذا رفع أحدهم رأسه من السجدة الثانية فی الركعة الأولى والثالثة ينهض كما هو ولم يجلس‘‘ترجمہ:امام زہری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ہمارے مشائخ نماز میں استراحت نہ فرماتے تھے یعنی جب پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے سے اٹھتے تو بیٹھے بغیر ویسے ہی کھڑے ہوجاتے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد 3،حدیث4031،صفحہ 375)
(10)”عن النعمان بن أبی عياش قال:أدركت غير واحد، من أصحاب النبی صلى اللہ عليه وسلم، فكان إذا رفع رأسه من السجدة فی أول ركعة والثالثة قام كما هو ولم يجلس“ترجمہ:حضرت نعمان بن ابو عیاش رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:میں نے ایک سے زائد اصحابِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو پایا ہے کہ جب وہ پہلی اور تیسری رکعت کے سجدے سے سر اٹھاتے تو بیٹھتے نہ تھے،جس حالت میں ہوتے، اسی حالت میں ہی کھڑے ہو جاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد3،حدیث4033،صفحہ375)
ان تمام ترصحابۂ کرام علیہم الرضواناور اکابر تابعین کے عمل سے واضح ہوگیا کہ سنت مستمرہ یہی رہی ہے کہ پہلی اور تیسری رکعت کے بعد جلسۂ استراحت نہیں کیا جائے گا۔اور نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا آخر عمر میں اس طرح کرنا عذر کی وجہ سے تھا۔
مبسوط امام محمد میں ہے:’’قلت: أفيستحب له إذا نهض أن ينهض على صدور قدميه إذا رفع رأسه من السجود حتى يستتم قائما ولا يقعد قال نعم يستحب له ذلك‘‘ترجمہ:میں نے عرض کی:کیا نمازی کے لئے مستحب ہے کہ سجدے سے سر اُٹھانے کے بعد جب کھڑا ہو توبغیر بیٹھے قدموں کی انگلیوں پر کھڑا ہوجائے؟ تو امام اعظم علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جی ہاں،یہ نمازی کے لئے مستحب ہے۔(کتاب الاصل،جلد1،صفحہ7،مطبوعہ دائرۃ المعارف)
رد المحتار میں علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”الاعتماد وجلسة الاستراحة السنة عندنا تركهما ۔۔۔فيكره فعلهما تنزيها“ترجمہ:سجدوں کےبعداٹھتےہوئےزمین پرہاتھ رکھ کراٹھنااور جلسہ استراحت،ان دونوں کا چھوڑنا ہمارے نزدیک سنت ہے،پس ان کاکرنا،مکروہ ِتنزیہی ہے ۔(رد المحتار، جلد1، صفحہ 147،مطبوعہ دار الفکر)
کراہتِ تنزیہی کے متعلق نہر الفائق اور منحۃ الخالق میں ہے:’’فی المعراج أن جلسة الاستراحة مكروهة عندنا إذ المراد بها التنزيه‘‘ترجمہ:معراج میں ہے کہ جلسہ استراحت ہمارے نزدیک مکروہ ہے اور اس سے مراد کراہتِ تنزیہی ہے۔(منحۃ الخالق،جلد1،صفحہ240،دار الکتاب الاسلامی)(نھر الفائق،جلد1،صفحہ218،دار الکتب العلمیہ)
حضرت سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں جس جلسۂ استراحت کا ذکر آیا ہے،اس کے بارے میں ائمہ نے صراحت کی ہے کہ یہ عذر کی وجہ سے تھا۔
جلسہ استراحت کے متعلق حضرت سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:’’أنه رأى النبی صلی اللہ علیہ وسلم يصلي،فإذا كان فی وتر من صلاته لم ينهض حتى يستوی قاعدا‘‘ترجمہ: آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب طاق رکعت میں ہوتے، تواس وقت تک نہ اٹھتے جب تک سیدھا بیٹھ نہ لیتے۔(صحیح البخاری، جلد1، حدیث823، صفحہ164، مطبوعہ مصر)
عمدۃ القاری میں ہے:’’قال الطحاوی:فلما تخالف الحديثان احتمل أن يكون ما فعله فی حديث مالك بن الحويرث لعلة كانت به،فقعد من أجلها،لا لأن ذلك من سنة الصلاة،وقال أيضا:لو كانت هذه الجلسة مقصودة لشرع لها ذكر مخصوص ولأن هذه الجلسة للاستراحة والصلاة غير موضوعة لتلك‘‘ترجمہ:امام طحاوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جب دو حدیثوں کا آپس میں تعارض ہوا، تو اس بات کا احتمال ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو نبی پاک علیہ السلام کا فعل ہے،وہ کسی بیماری کی وجہ سے ہو اور اسی وجہ سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوں،اس لیے نہیں کہ یہ نماز میں سنت ہے۔امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ مزید فرماتے ہیں:اگر یہ جلسہ مقصود ہوتا ،تو ضرور اس کے لئے مخصوص ذکر مشروع ہوتا ،اور کیونکہ یہ جلسہ آرام کے لیے ہے اور نماز اس(آرام) کے لیے نہیں بنائی گئی۔(عمدۃ القاری،جلد6،صفحہ98،دار احیاء التراث)
مرآۃ المناجیح میں ہے:’’اس کا نام جلسہ استراحت ہے یعنی آرام کے لیے کچھ بیٹھنا،یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں سنت ہے،ہمارے ہاں نہیں۔۔اس حدیث کا مطلب جو یہاں مذکور ہے ،یہ ہے کہ آپ بڑھاپے شریف میں جب ضعف کی وجہ سے سجدے سے سیدھے نہ اٹھ سکتے تب تھوڑا بیٹھ جاتے یہ عمل مجبورا تھا۔‘‘(مرأۃ المناجیح، جلد2، صفحہ18،نعیمی کتب خانہ،گجرات)
امام ابن الہمام صاحب فتح القدیر اور شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہما فرماتے ہیں:’’فقد اتفق أكابر الصحابة الذين كانوا أقرب إلى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأشد اقتفاء لأثره وألزم لصحبته من مالك بن الحويرث على خلاف ما قال، فوجب تقديمه، ولذا كان العمل عليه عند أهل العلم‘‘ترجمہ: وہ اکابر صحابہ کہ جو حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے زیادہ حضور علیہ السلام کے قریب اور ان کی صحبت کو لازم پکڑے ہوتے تھے اور ان سے زیادہ جو حضور علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلنے والے تھے، اُن اکابر صحابہ کا حضرتِ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت کے خلاف پر اتفاق ہے،لہذا انہی صحابہ کی بات کو مقدم رکھا جائے گا اور اسی وجہ سے اہل علم کا اس پر عمل ہے۔(لمعات التنقیح،جلد2،صفحہ545،دار النوادر)( فتح القدیر، جلد1،صفحہ309،دار الفکر)
اور اسی سبب سےائمہ اربعہ میں سے امام شافعی علیہ الرحمۃ کے علاوہ کسی کے نزدیک بھی ایسا کرنا سنت نہیں۔جیسا کہ جوہرہ نیرہ میں ہے:’’(ولا يقعد)وبه قال مالك وأحمد وقال الشافعي يجلس جلسة خفيفة‘‘ترجمہ:اور نمازی پہلی اور تیسری رکعت میں سجدے کے بعد نہیں بیٹھےگا،یہی مؤقف امام مالک اور امام احمد بن حنبل علیہما الرحمۃ کا ہے اور امام شافعی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ وہ تھوڑا بیٹھے گا۔(الجوھرۃ النیرۃ،جلد1،صفحہ54،المطبعۃ الخیریۃ)
حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’واختلف الفقهاء فی النهوض من السجود إلى القيام فقال مالك والأوزاعي والثوري وأبو حنيفة وأصحابه ينهض على صدور قدميه ولا يجلس وروی ذلك عن ابن مسعود وابن عمر وابن عباس وقال النعمان بن أبی عياش أدركت غير واحد من أصحاب النبی صلى اللہ عليه وسلم يفعل ذلك وقال أبو الزناد تلك السنة وبه قال أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه قال أحمد أكثر الأحاديث على هذا قال الأثرم ورأيت أحمد بن حنبل ينهض بعد السجود على صدور قدميه ولا يجلس قبل أن ينهض وذكر عن ابن مسعود وابن عمر وأبی سعيد وابن عباس وابن الزبير أنهم كانوا ينهضون على صدورأقدامهم۔‘‘ترجمہ:سجدے سے قیام کی طرف کھڑے ہونےمیں فقہائے کرام کا اختلاف ہے،امام مالک،امام اوزاعی،امام سفیان ثوری اور امام اعظم اور اُن کے اصحاب رحمۃ اللہ تعالی علیہم فرماتے ہیں کہ(نمازی پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد) بغیر بیٹھے اپنی انگلیوں کے بَل کھڑا ہوگا اور یہی حضرت ابنِ مسعود،ابنِ عمر اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ایک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔امام ابو الزناد علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:یہی سنت ہے اور اسی کے قائل امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ علیہما الرحمۃ ہیں۔امام احمد علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:اسی بات پر اکثر احادیث مروی ہیں۔امام اثرم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:میں نے امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کو سجدے کے بعد بغیر بیٹھے اپنی پاؤں کی انگلیوں کے بل کھڑا ہوتے دیکھا ہے۔اور حضرت ابن مسعود،ابن عمر ،ابو سعید ،ابن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں مذکور ہے کہ یہ حضرات بھی اپنے پاؤں کی انگلیوں کے بل قیام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔(التمھید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید،جلد19، صفحہ254،255، طبع المغرب)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟