Paseene Wale Kapre Pehen Kar Masjid Mein Jana

 

پسینے والے کپڑے پہن کر مسجد میں جانا

مجیب:مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2949

تاریخ اجراء: 03صفر المظفر1446 ھ/09اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   پسینے والے کپڑے پہن کر مسجد میں جانا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمان کا پسینہ پاک ہے اور    گرمی کے موسم میں   عموما کچھ نہ کچھ پسینہ کپڑوں کو لگ جاتا ہے، لہذا عام حالت میں  پسینہ کپڑوں کو لگ جانے سےمسجد میں جانا منع نہیں ہوتا ، البتہ اتنی زیادہ مقدار   میں پسینہ ہو کہ جس سے کپڑوں میں بدبو پیدا ہو جائے اور اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے، تو ایسے کپڑوں کے ساتھ مسجد  جانا منع ہو گا کہ یہ  مسجد کے تقدس کی خلاف ورزی اور  دیگر مسلمان نمازیوں کی ایذا رسانی   کا سبب ہے ۔

   مسجد کو پاک و صاف رکھنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے﴿ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ﴾ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید فرمائی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے خوب پاک  صاف رکھو۔ ‘‘(پارہ1،سورۃ  البقرۃ،آیت125)

   اس آیت کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں ہے:’’اس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ اور مسجد حرام شریف کو حاجیوں، عمرہ کرنے والوں، طواف کرنے والوں،اعتکاف کرنے والوں اور نمازیوں کےلیے پاک و صاف رکھا جائے۔ یہی حکم مسجدوں کو پاک و صاف رکھنے کا ہے، وہاں گندگی اور بدبو دار چیز نہ لائی جائے۔ یہ سنت انبیاء(علیہم السلام )ہے۔(صراط الجنان ج 1،ص 232،مکتبۃ المدینہ)

   مسجد کو بدبو سے بچانے کے متعلق سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من  اكل من هذه الشجرة،قال اول يوم:الثوم، ثم قال:الثوم والبصل والكراث فلا يقربنا في مساجدنا،فان الملائكة تتاذى مما يتاذى منه الانس‘‘ترجمہ:جو اس درخت سے کھائے(پہلے دن آپ نےلہسن کا فرمایا،پھرلہسن ،پیاز اورگندنایعنی لہسن کےمشابہ ایک بو والی سبزی کا فرمایا)،تووہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ،کیونکہ انسان جس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں، فرشتے بھی اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔(سنن نسائی،کتاب المساجد،باب من یمنع من المسجد،ج2،ص 43، الناشر:  المطبوعات الإسلامية - حلب)

   ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’قلت:العلة اذى الملائكة واذى المسلمين ويلحق بما نص عليه في الحديث كل ما له رائحة كريهة من الماكولات وغيرها، وانما خص الثوم هنا بالذكر، وفي غيره ايضا بالبصل والكراث لكثرة اكلهم بها‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں کہ اس ممانعت کی علت ملائکہ اور مسلمانوں کوایذا دینا ہے،اورحدیث میں جن چیزوں پر صراحت کی گئی ہے،ان کے ساتھ کھانے والی اور نہ کھانے والی ہر اس چیز کو لاحق کیا جائے گا،جوبدبودار ہواور یہاں خاص طور پر لہسن اور دیگر احادیث میں پیاز اور گندناکو بھی ذکر کیا گیا ہے،کیونکہ ان چیزوں کو کثرت سے کھایا جاتاہے(ورنہ ممانعت ہر بدبو والی چیزکے ساتھ خاص ہے ۔)(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، باب ما جاء فی الثوم النیئ،ج 6،ص 146، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ  سے مسجد کے قریب استنجاء خانے بنانے کے متعلق سوال ہو ا ، تواس کے جواب میں  ارشاد فرمایا:’’مسجد کوبو سے بچانا واجب ہے، ولہذا مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام، مسجد میں دیا سلائی سلگانا حرام، حتی کہ حدیث میں ارشاد ہوا:’’وان یمرفیہ بلحم نیئ‘‘(یعنی مسجد میں کچا گوشت لے جانا ، جائز نہیں) حالانکہ کچے گوشت کی بوبہت خفیف ہے، تو جہاں سے مسجد میں بو پہنچے وہاں تک ممانعت کی جائے گی۔۔۔یہ خیال نہ کرو کہ اگر مسجد خالی ہے، تو اس میں کسی بو کا داخل کرنا اس وقت جائز ہو کہ کوئی آدمی نہیں جواس سے ایذا پائے گا، ایسا نہیں، بلکہ ملائکہ بھی ایذا پاتے ہیں، اس سے جس سے ایذاپاتا ہے انسان۔مسجد کو نجاست سے بچانا فرض ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج 16،ص 231،232،233، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   سیدی امیرِ اہلسنت دامت برکاتھم العالیہ اپنے رسالے”مسجدیں خوشبو دار رکھئے“ میں لکھتے ہیں : پاک بد بو چھپی ہوئی ہو جیسا کہ اکثر لوگوں کے بدن میں پسینے کی بد بو ہوتی ہے مگر لباس کے نیچے چھی ہوئی ہوتی ہے اور محسوس نہیں ہوتی تو اس صورت میں مسجد کے اندر جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر رومال میں  پسینے وغیرہ کی بد بو ہے جیسا کہ گرمی میں منہ کا پسینہ پونچھنے سے اکثر ہو جاتی ہے تو ایسا رومال مسجد کے اندر نہ نکالے، جیب ہی میں رہنے دے، اگر عمامہ یا ٹوپی اتارنے سے پسینے  یا میل کچیل وغیرہ کی بد بو آتی ہے تو مسجد میں نہ اُتارے۔ ۔۔  ہر مسلمان کو اپنے منہ ، بدن ، رومال ، لباس اور جوتی چپل وغیرہ پر غور کرتے رہنا چاہئے کہ اس میں کہیں سے بدبو تو نہیں آرہی اور ایسا میلا کچیلا لباس پہن کر بھی مسجد میں نہ آئیں جس سے لوگوں کو گھن آئے ۔(مسجدیں خوشبو دار رکھئے، ص 13، مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم