Painchay Fold Kar Ke Namaz Parhna Kaisa?

پائنچے فولڈ کر کے نماز پڑھناکیسا؟

مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7569

تاریخ اجراء:25 رَبیعُ الاوَّل1443ھ/01 نومبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ایک امام صاحب پائنچوں سے  شلوار فولڈ کر کے نماز پڑھاتے ہیں۔ ہم نے امام صاحب سے گزارش کی کہ ایسا کرنا درست  نہیں ہے۔ وہ جواباً  کہتے ہیں کہ دین میں اتنی سختی نہیں ہے اور اب تک اِسی انداز میں نماز پڑھا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نماز میں کپڑا پائنچوں سے فولڈ کرنے کے متعلق رہنمائی فرمائیں کہ کیا اسلام اِس کی اجازت دیتا ہے یا ممنوع ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پینٹ،  شلوار یا پاجامے کونیچے سے فولڈ کر کے یااوپر سے گُھرَس کر نماز پڑھنے سے نماز مکروہ تحریمی،  واجب الاعادہ ہوتی ہے،  یعنی اس طرح نماز پڑھنا گناہ  ہے اور اُسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے، لہذا اب تک جتنی نمازیں مذکورہ حالت میں ادا کی گئیں، اُنہیں دوبارہ پڑھنا ضروری ہے اور امام کاجواب  بالکل غلط او ربے موقع ہے، جب اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے صاف الفاظ میں منع کیا تو اس کے آگے کسی امام مسجد کی تو کیا، امامِ زمانہ  کی بھی جرأت  نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو نہ مانے اور اس کی بجائے یہ باطل جملہ کہے کہ دین میں اتنی سختی نہیں۔ کوئی حدیث سے جاہل ہو ،تو جُدا بات ہے، ایسے کو حدیث اور حکم شرع بتادیا جائے، لیکن حدیث معلوم ہونے کے بعد کوئی ایسا کہے، تو اسے اپنے ایمان ہی کی فکر کرنی چاہیے ۔ دین میں کتنی سختی ہے اور کتنی نرمی ہے، یہ سب سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ جانتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کے فیضان سے فقہائے کرام جانتے ہیں۔ جانتے بوجھتے ایسا رویہ تکبر کی علامت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے  تکبر کا معنی  ہی یہ بیان کیا  ہےکہ لوگوں کو حقیر جاننا اور حق بات قبول نہ کرنا۔ دین میں یقینا نرمی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں:﴿ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَترجمہ کنزالعرفان:’’ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔‘‘ (پارہ2،سورۃ البقرۃ، ،  آیت185)

   ایک اور جگہ فرمایا:﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاترجمہ کنزالعرفان:’’اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔‘‘(پارہ3،سورۃ البقرۃ،  آیت286)

   لیکن احکامِ شریعت کے شارح و شارِع علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز میں  کپڑا فولڈ کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:’’أمرت أن أسجد على سبعة، لا اکف شعرا ولا ثوبا۔‘‘ترجمہ:مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور اپنے بالوں اورکپڑوں کو نہ لپیٹوں۔(صحیح البخاری، جلد1،  باب لایکف ثوبہ فی الصلاۃ، صفحہ 163، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

   علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:956ھ/1049ء) لکھتےہیں:’’يكره أن يكف ثوبه وهو في الصلاة أو يدخل فيها وهو مكفوف كما إذا دخل وهو مشمر الكم أو الذيل۔‘‘ ترجمہ:حالتِ نماز میں نمازی کو کپڑا لپیٹنا مکروہ ہے، یونہی اگر وہ نماز شروع ہی اِس انداز میں کرے کہ اُس نے کپڑا فولڈ کیا ہوا ہو، جیسا کہ جب کوئی یوں نماز شروع کرے کہ اُس کی آستین یا دامن چڑھا ہوا ہو۔(غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، فصل فیما یکرہ فعلہ فی الصلاۃ، صفحہ 348، مطبوعہ لاھور)

   علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’کرہ کفہ‘‘ ترجمہ: کپڑے کو لپیٹنا مکروہِ (تحریمی) ہے۔(درمختار مع ردالمحتار ، جلد2، باب ما يفسد الصلاة ومايكره فيها، صفحہ490، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اِس کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’حرر الخير الرملي ما يفيد أن الكراهة فيه تحريمية۔‘‘ترجمہ:جو علامہ خیر الدین رملی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر کیا ہےوہ اِس فعل کے مکروہِ تحریمی ہونے کو ثابت کرتاہے۔(ردالمحتار مع درمختار ، جلد2، باب ما يفسد الصلاة ومايكره فيها، صفحہ490، مطبوعہ  کوئٹہ)

   امامِ اہلسنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے ”کفِ ثوب“ کی ایک  صورت یعنی  آستینوں کو نصف کلائیوں سے اوپر تک فولڈ  کر کے نماز پڑھنے کے متعلق سوال ہوا ،تو آپ نے جواباً لکھا:’’ضرور مکروہ ہے اور سخت وشدیدمکروہ ہے۔ تمام متونِ مذہب میں ہے:’’کرہ کفہ‘‘ ترجمہ:کپڑوں کو لپیٹنا مکروہ ہے۔ لہذا لازم ہے کہ آستینیں اتار کرنماز میں داخل ہو، اگرچہ رَکعت جاتی رہے اور اگرآستین چڑھی نمازپڑھے، تو اعادہ کی جائے۔ کما ھو حکم صلاۃ ادیت مع الکراھۃ کمافی الدر وغیرہ  ۔ترجمہ:جیسا کہ ہراس نماز کاحکم ہے جوکراہت کے ساتھ اداکی گئی ہو۔ جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے۔‘‘ملتقطاً(فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ309،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   خلیلِ ملت ، مفتی محمد خلیل خان قادری برکاتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1405ھ/1985ء)لکھتے ہیں :’’شلوار کو اوپر اُڑس لینا یا اس کے پائنچہ کو نیچے سے لوٹ لینا، یہ دونوں صورتیں کفِ ثوب یعنی کپڑا سمیٹنے میں داخِل ہیں اور کف ثوب یعنی کپڑا سمیٹنا مکروہ اور نماز اِس حالت میں ادا کرنا، مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ  کہ دہرانا واجب، جبکہ اِسی حالت میں پڑھ لی ہو اور اصل اِس باب میں کپڑے کا خلافِ معتاد استعمال ہے، یعنی اس کپڑے کے استعمال کا جو طریقہ ہے ، اس کے برخلاف اُس کا استعمال۔جیسا کہ عالمگیری میں ہے۔(فتاوی خلیلیہ،جلد1،صفحہ246، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم