Namazi Ke Agay Se Agar Koi Shakhs Guzar Jaye, To Kya Namaz Toot Jayegi?

نمازی کے آگے سے اگر کوئی شخص گزر جائے، تو کیا نماز ٹوٹ جائے گی؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12839

تاریخ اجراء:01ذیقعدۃ الحرام1444ھ/22مئی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازی کے آگے سے اگر کوئی شخص گزرجائے، تو کیا اس صورت میں نماز ٹوٹ جائے گی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں! پوچھی گئی صورت میں نمازی کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔

   چنانچہ تنویر الابصار مع الدر المختار اور دیگر کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:’’(ولا يفسدها نظره إلى مكتوب وفهمه و مرور مار فی الصحراء  او فی مسجد کبیر بموضع سجودہ) فی الاصح (او) مروره (بين يديه) الى حائط القبلة (فی) بيت و (مسجد) صغير ، فانه كبقعة واحدة (مطلقاً)۔۔۔۔(وان اثم المار)‘‘ یعنی نمازی کا لکھے ہوئے مضمون  کی طرف نظر کرنا اور اسے سمجھنا نماز کو فاسد نہیں کرتا۔  اورمسجد کبیر یا صحرا میں  نمازی کے موضع سجود  میں سے گزرنا یا گھر  اور چھوٹی مسجد میں نمازی کے سامنے قبلہ کی جانب سے گزرنا مطلقا نماز کو فاسد نہیں کرتا کیونکہ گھر اور چھوٹی مسجد ایک مکان کی طرح ہیں  اگرچہ گزرنے والا گنہگار ہوگا ۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ،ج1،ص 634،مطبوعہ بیروت، ملتقطاً)

   فتاوٰی عالمگیری  میں ہے:”ولو مر مار في موضع سجوده لا تفسد وإن أثم“یعنی اگر کوئی گزرنے والا نمازی کے آگے موضع سجود سے گزرجائے تو نماز فاسد نہیں ہوگی، اگرچہ  گزرنے والا گنہگار ہوگا۔ (فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 104، مطبوعہ بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے :” نمازی کے آگے سے بلکہ موضع سجود  سے کسی کا گزرنا نماز کو فاسد نہیں کرتا، خواہ گزرنے والا مرد ہو یا عورت،  کُتّا ہو یا گدھا۔ “(بہارِ شریعت، ج 01،  ص614، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی اجملیہ میں ہے : ’’نمازی کے سامنے سے سہواً گزرنے والے تو گنہگار ہی نہیں۔ ہاں! قصداًگزرنے والا سخت گنہگار ہے، بہر صورت اس سے نمازی کی نماز باطل نہیں ہوئی۔(فتاوٰی اجملیہ، ج 02، ص 25، شبیر برادرز،  لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم