Namazi Ka Bhoole Se اَللہُ اَعْظَمُ Keh Kar Namaz Shuru Karna Kaisa ?

نمازی کا بھولے سے " اَللہُ اَعْظَمُ" کہہ کر نماز شروع کرنا کیسا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13359

تاریخ اجراء: 20شوال المکرم1445 ھ/29اپریل 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ زید نے بھولے سے " ﷲ اکبر " کے بجائے " اَللہُ اَعْظَمُ" کے الفاظ سے نماز شروع کی پھر آخر میں سجدہ سہو بھی کیا، تو کیا اس صورت میں سجدہ سہو کرلینے سے زید کی نماز درست ادا ہوگئی ؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! پوچھی گئی صورت  میں سجدہ سہو کرلینے سے زید کی نماز درست ادا ہوگئی، کیونکہ نماز کو لفظ  "اﷲ اکبر " سے شروع کرنا واجباتِ نماز میں سے ہے ، اور  واجباتِ نماز میں سےکسی بھی واجب کو  نمازی اگر بھولے سے ترک کردے، تو اس کی تلافی سجدہ سہو سے ہوجاتی ہے۔

   لفظ " اﷲ اکبر " سے نماز کو شروع کرنا واجباتِ نماز میں سے ہے۔ جیسا کہ مراقی الفلاح میں واجباتِ نماز کے تحت مذکور ہے:”(و) يجب (تعيين) لفظ (التكبير لافتتاح كل صلاة) للمواظبة عليه۔ وقال في "الذخيرة" ويكره الشروع بغيره في الأصح۔ “یعنی ہر نماز کو شروع کرنے کے لیے لفظ "اﷲ اکبر " کی تعیین واجب ہے کہ اس پر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ سلم  نے مواظبت فرمائی ہے۔ صاحبِ ذخیرہ نے فرمایا کہ "اﷲ اکبر " کے علاوہ کسی لفظ سے  نماز  شروع کرنا اصح قول کے مطابق مکروہ ہے ۔

    (ويكره الشروع بغيره)کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:”أي تحريماً لأنه لترك الواجب۔“ترجمہ:”یعنی  یہ کراہت تحریمی ہے کیونکہ اس نے واجب ترک کیا ہے ۔ “(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، کتاب الصلاۃ، ص 252، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   فتاویٰ شامی میں واجباتِ نماز کے تحت مذکور ہے:”وجوب لفظ التکبیر فی کل صلاۃ حتی یکرہ تحریماً الشروع بغیر اللہ اکبر۔“ یعنی ہر نماز کی ابتداء میں تکبیر کا لفظ کہنا واجب ہے، یہاں تک کہ لفظ" اﷲ اکبر " کے علاوہ کسی دوسرے  لفظ سے نماز کو شروع کرنا مکروہ تحریمی ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 200، مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نماز کے 30 واجبات میں سے پہلا واجب نقل فرماتے ہیں:” (1)تکبیر تحریمہ میں لفظ اﷲ اکبر ہونا۔“(بہار شریعت، ج01، ص517، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مزید ایک دوسرے مقام پر بہارِ شریعت میں مذکور ہے:” اﷲ اکبر کی جگہ کوئی اور لفظ جو خالص تعظیمِ الٰہی کے الفاظ ہوں۔ مثلاًاَللہُ اَجَلُّ یا اَللہُ اَعْظَمُ یا اَللہُ کَبِیْرٌ یا اَللہُ الْاَکْبَرُ یا اَللہُ الْکَبِیْرُ یا اَلرَّحْمٰنُ اَکْبَرُ یا اَللہُ اِلٰـہٌ یا لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ یا سُبْحَانَ اللہُ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ  یا لَا اِلٰـہَ غَیْرُہٗ یا تَبَارَکَ اللہُ وغيرہا الفاظ تعظیمی کہے، تو ان سے بھی ابتدا ہوجائے گی مگر یہ تبدیل مکروہ تحریمی ہے۔ “(بہار شریعت، ج01، ص509، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   واجباتِ نماز میں سے کوئی واجب بھولے سے چھوٹ جائے تو اس کی تلافی سجدہ سہو سے ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:” الأصل في هذا أن المتروك ثلاثة أنواع فرض وسنة وواجب۔۔۔۔في الثالث إن ترك ساهيا يجبر بسجدتي السهو وإن ترك عامدا لا ، كذا التتارخانية۔ “ترجمہ: ”اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ متروک کی تین اقسام ہیں فرض، سنت اور واجب۔۔۔۔تیسری قسم  یعنی واجب میں حکم یہ ہے کہ اگر واجب کو بھولے سے چھوڑا تو اس کی تلافی سہو کے دو سجدوں سے ہوجائے گی اور اگر کسی واجب کو جان بوجھ کر ترک کیا تو سجدہ سہو کافی نہیں، جیسا کہ تتارخانیہ میں مذکور ہے ۔“(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 126 ،   مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:” واجبات نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے ليے سجدۂ سہو واجب ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ التحیات کے بعد دہنی طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے۔“(بہار شریعت، ج01، ص708، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاویٰ امجدیہ میں ہے:”واجباتِ نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو تو سجدہ سہو واجب، اور اگر سجدہ سہو نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔“(فتاویٰ امجدیہ، ج01، ص 276، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم