Namaz Mein Zarurat Se Zyada Unchi Awaz Mein Qirat karna

جہری نماز میں ضرورت سے زیادہ اونچی آواز سے قراءت کرنا کیسا؟

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر:WAT-3326

تاریخ اجراء:26جمادی الاولیٰ1446ھ/29نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ضرورت سے اونچی قراءت کرنا مکروہ ہے۔کیا یہ مکروہِ تحریمی ہے؟اور نماز میں ایسا ہوا جیسے جہری قراءت میں امام نے  بہت  اونچی قراءت کی، تو نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ  ہو گی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ضرورت سے زیادہ اونچی آواز سے قراءت کرنامکروہِ تحریمی نہیں ہے، لہٰذا  اگر امام نے  مقتدیوں  کی تعداد سے زیادہ اونچی آواز سے قراءت کی، تو کراہتِ تحریمی و اعادے وغیرہ کا حکم نہیں ہو گا،البتہ!مستحب یہ ہے کہ حاجت کے مطابق آوازبلندکرے،بلاوجہ حاجت سے زائد آواز کا بلند کرنااچھانہیں ہے۔

   حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:والأولى ان لا يجهد نفسه بالجهر بل بقدر الطاقة لأن إسماع بعض القوم يكفي بحر ونهر والمستحب أن يجهر بحسب الجماعة فإن زاد فوق حاجة الجماعة فقد أساء كما لو جهر المصلي بالأذكار قهستاني عن كشف الأصولترجمہ:اولیٰ(بہتر)یہ ہے کہ امام اونچی آواز سے قراءت کرنے میں اپنے آپ پر مشقت نہ ڈالے، بلکہ  بقدرِ طاقت اونچی آواز کرے کہ بعض قوم کا سن لینا کافی ہوتا ہے(بحرونہر)اور مستحب ہے کہ جماعت کی تعداد کے مطابق اپنی آواز بلند کرے،پس اگر جماعت کی حاجت سے زیادہ اونچی آواز کی،تو برا کیا  جیسا کہ اگر نمازی اونچی آواز سے اذکار پڑھے،تو اس کا حکم ہے،قہستانی عن کشف الاصول۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، ص253، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم