Namaz Mein Urdu Mein Dua Mangne Ka Hukum

نماز میں اردو میں دعا مانگنے کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0171

تاریخ اجراء: 06الصفر المصفر1445ھ/23اگست2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے  کے بارے میں  کہ کیا ہم نماز میں جہاں دعا مانگی جاتی  وہاں عربی کے بجائے اردو میں دعا کر سکتےہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوائے عجز کی حالت کے نماز میں عربی میں دعا کرنا واجب ہے اور غیر عربی مثلاً اردو وغیرہ  میں دعا کرنا مکروہِ تحریمی ،ناجائز و گناہ  ہے۔

   ا س کی تفصیل یہ ہےکہ :نماز میں غیر عربی  میں  ذکر و دعا کا مسئلہ غیر عربی میں تکبیرِ تحریمہ اور  قراءت قرآن  پر مبنی ہے، تو اگر کوئی عربی میں قراءت و دعا کرسکتا ہو اور غیر عربی میں قراءت و دعا کرے  تو  اس کی نماز کے فساد و عدمِ فساد میں امام اعظم  اور صاحبین رحمہم اللہ کا اختلاف ہے ، امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک  نماز فاسد نہیں ہوتی ،جبکہ صاحبین رحمھما اللہ کے نقطہ نظر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے،  چنانچہ فتاوی قاضی خان میں ہے:” لو قال بالفارسیۃ ”خدای بزرک است“ أو قال ”خدای بزرک“ أو قال ”بنام خدای بزرک“ یصیر شارعاً فی الصلاۃ فی قول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ وقال صاحباہ لایصیر شارعاً اذا کان یحسن العربیۃ وعلی ھذا الخلاف اذا قرء القرآن فی الصلاۃ بالفارسیۃ عند أبی حنیفۃ یجوز وان کان یحسن العربیۃ وعندھما ان کا یحسن العربیۃ لایجوز وتفسد صلاتہ کذا ذکر شمس الأئمۃ الحلوانی رحمہ اللہ وعلی ھذا الخلاف جمیع أذکار الصلاۃ من التشھد والقنوت والدعاء وتسبیحات الرکوع والسجود فان قال بالفارسیۃ فی الصلاۃ ”یارب بیامرزم“ اذا کان  یحسن العربیۃ تفسد صلاتہ وعندہ لاتفسد وکذا  کل  مالیس بعربیۃ کالترکیۃ والزنجیۃ والحبشیۃ والنبطیۃ“ ترجمہ:اگر کسی نے فارسی میں تکبیر کہی اور  کہا ” خدا عظیم ہے“ یا کہا  ” خدائے عظیم“ یا کہا ”عظیم خدا کے نام سے“ تو  امام اعظم رحمہ اللہ کے قول کے مطابق نماز منعقد ہوجائے گی، اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک  اگر وہ عربی میں کہہ سکتا ہے،تو شروع نہیں ہوگی، اسی اختلاف کی بنا پر اگر کوئی نماز میں فارسی میں قراءت کرے تو امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک نماز درست  ہے، اگر چہ وہ  عربی میں قراءت کرسکتا ہو اور صاحبین کے نزدیک اگر عربی میں کرسکتا ہے ،تو جائز نہیں اور نماز فاسد ہوجائے گی ،شمس الائمہ حلوانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی طرح ذکر کیا ہے، اسی اختلاف  پر نماز کے دیگر اذکار کا حکم مبنی ہے یعنی تشہد ، قنوت، دعا اور رکوع و سجود کی تسبیحات،   تو اگر کوئی نماز میں فارسی میں کہے”اے رب مجھے معاف کردے۔“اگر عربی میں دعا کرسکتا ہے ،تو اس کی نماز (صاحبین کے نزدیک) فاسد ہوجائے گی اور امام اعظم کے نزدیک فاسد نہیں ہوگی، اسی طرح ہر غیر عربی زبان مثلاً:  ترکی‘ زنجی‘ حبشی‘ نبطی وغیرہ کا حکم ہے۔(فتاوی قاضی خان،ج1،ص82، مطبوعہ کوئٹہ)(خلاصۃ الفتاوی، ج1، ص84،مطبوعہ کوئٹہ)

   لیکن غیر عربی میں  قراءتِ قرآن کے مسئلے میں امام اعظم رضی اللہ عنہ نے قوتِ دلیل کی بنا پر امام ابو یوسف و امام محمد رحمھم ا للہ  کے مؤقف کی طرف رجوع فرمالیا تھا، البتہ دیگر اشیاء کے متعلق امام اعظم رضی اللہ عنہ کا رجوع ثابت نہیں،بلکہ وہ اپنی اصل پہلے اختلاف پر ہی مبنی ہیں، در مختار میں ہے:”(قرء بھا عاجزا) فجائز اجماعاً ، قید القراءۃ بالعجز لان الأصح رجوعہ الی قولھما وعلیہ الفتوی، قلت : وجعل العینی الشروع کالقراءۃ لا سلف لہ فیہ ولا سند لہ یقویہ “ ترجمہ: عربی سے عاجز شخص نے نماز میں غیر عربی میں قراءت کی ،تو اجماعاً جائز ہے،  جوازِ قراءت کو عجز سے مقید کیا، کیونکہ  اصح یہ ہے کہ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے  صاحبین کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا اور اسی قول پر فتوی ہے، میں (علامہ علاؤالدین حصکفی رحمہ اللہ ) کہتاہوں کہ علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے نماز کے شروع (یعنی غیر عربی میں تکبیر ) کو  (امامِ اعظم کے رجوع کرنے میں )قراءت (  کے مسئلے)کی طرح قرار دیا، حالانکہ اس سے پہلے اس بات میں ان کا کوئی سلف نہیں  اور نہ ہی ان کے پاس کوئی قوی سند ہے۔

    (لا سلف لہ فیہ) کے تحت شامی میں ہے:”لم یقل بہ أحد قبلہ وانما المنقول أنہ رجع الی قولھما فی اشتراط القراءۃ  بالعربیۃ الا عند العجز و أما مسئلۃ الشروع فالمذکور فی عامۃ الکتب حکایۃ الخلاف فیھا بلا ذکر رجوع أصلاً وعبارۃ المتن کالکنز وغیرہ کالصریحۃ فی ذلک حیث اعتبر العجز قیداً فی القراءۃ فقط “ ترجمہ:یعنی (غیر عربی میں قراءت کے علاوہ دیگر مسائل مثلاً: فار سی میں تکبیر کی بابت امام  اعظم کے رجوع کا قول  علامہ عینی سے پہلے کسی نے نہیں کیا، منقول تو فقط یہی ہےکہ امام اعظم رحمہ اللہ نے  عجز کے علاوہ عربی میں قراءت کے شرط ہونے  کے مسئلے میں  صاحبین کے قول کی طرف  رجوع کرلیا تھا، رہا شروع (یعنی فارسی میں تکبیر کا مسئلہ) تو عام کتب میں یہ اختلاف  اصلاً بغیر رجوع کے ذکر کے موجود ہے، اور متن کی عبارت جیسے کنز وغیرہ اس میں صریح ہیں کہ عجز کا اعتبار  فقط قراءت میں ہے۔  

    (ولا سند لہ یقویہ) کے تحت شامی میں ہے:”لیس لہ دلیل یقوی مدعاہ لان الامام رجع الی قولھما فی اشتراط القراءۃ  بالعربیۃ ۔۔۔فلقوۃ دلیل قولھما رجع الیہ۔۔۔ أما الشروع بالفارسیۃ فالدلیل فیہ للامام أقوی وھو کون المطلوب فی الشروع الذکر والتعظیم  وذلک حاصل بأی لفظ کان وأی لسان کان نعم لفظ أللہ أکبر واجب للمواظبۃ علیہ لا فرض“ ترجمہ:اور علامہ عینی کے پاس ایسی کوئی سند نہیں جو ان کے دعوے کو قوت فراہم کرتی ہو ،  کیونکہ امام صاحب نے  صاحبین کے قول  یعنی عربی میں قراءت کے شرط ہونے  کی طرف رجوع  صاحبین کے قول  کی دلیل کی قوت کی وجہ سےکیا تھا ۔۔۔ رہی فارسی میں تکبیر تو اس میں امام اعظم رحمہ اللہ کے قول کی دلیل زیادہ قوی ہے، وہ یہ کہ  شروع میں مطلوب ذکر و تعظیم ہے اور یہ (اس کے معنی  کے ) کسی بھی لفظ  اور کسی بھی زبان سے حاصل  ہوجاتا ہے ۔ ہاں لفظ ”اللہ اکبر“ کہنا مواظبت کی وجہ سے واجب ہے۔ (در مختار مع رد المحتار،ج2،ص224، 225، مطبوعہ کوئٹہ)

   اس کاحاصل یہ ہوا کہ صاحبین کے نزدیک غیر عربی میں دعا سے نماز فاسد ہوجائے گی اور امام اعظم کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن  اس کے باوجود عربی میں دعا کرنا واجب اور  غیر عربی میں دعا کرنا مکروہ   تحریمی ہے۔ در مختار میں ہے:” (ودعا) بالعربية، وحرم بغيرها“ ترجمہ:(نماز میں تشہد و درود کے بعد) عربی میں دعا کرے اور غیر عربی میں دعا کرنا حرام ہے۔

   رد المحتار میں اس کے تحت ہے:” لكن المنقول عندنا الكراهة؛ فقد قال في غرر الأفكار شرح درر البحار في هذا المحل: وكره الدعاء بالعجمية۔۔۔ ولا يبعد أن يكون الدعاء بالفارسية مكروها تحريما في الصلاة “ ترجمہ:لیکن ہمارے یہاں منقول کراہت  ہے غرر الافکار شرح درر البحار میں اس مقام پر ہے: عجمی میں دعا کرنا، مکروہ ہے۔۔۔اور یہ بعید نہیں کہ نماز میں فارسی میں دعا مکروہ تحریمی ہو۔(در مختار مع رد المحتار،ج1،ص285، 286، مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار کے قول ”الدعاء بالفارسیۃ مکروھا تحریما فی الصلاۃ“ کے تحت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ جد الممتار میں  فرماتےہیں:”أقول:یؤیدہ أن القصر علی العربیۃ مواظب علیہ ولم یثبت ترکہ ولو مرۃ فکان آیۃ الوجوب کما قدّم فی التکبیر“ ترجمہ:میں کہتا ہوں:اس کی تائید اس سےہوتی ہےکہ عربی میں دعا پر اقتصار   مواظبت کے ساتھ  ہے اور اس کا ترک ایک مرتبہ بھی ثابت نہیں  ،تو یہ عربی میں دعا کرنے کے وجوب کی دلیل  ہے، جیسا کہ تکبیر میں گزرا۔(جد الممتار،ج2،ص227، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم