Namaz Mein Surah Fatiha Se Pehle Aur Baad Mein Tasmiya Parhna

نمازمیں سورہ فاتحہ سے پہلے اوربعد تسمیہ پڑھنا

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1875

تاریخ اجراء:19محرم الحرام1445ھ/07اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے اور سورہ فاتحہ کے بعد سورت شروع کرنے سے پہلے تسمیہ(بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   امام اور مُنفرد(یعنی تنہا نماز پڑھنے والے)دونوں کیلئے سورہ فاتحہ سے پہلے آہستہ آواز سے’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا سنت ہے اور سورہ فاتحہ کے بعداگر  کوئی سورت درمیان سے پڑھے تو بسم اللہ نہیں پڑھے گا اور اگر سورت بالکل شروع یعنی پہلی آیت کے پہلے لفظ سے شروع کرے تو اس  سے پہلے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا مستحب و مستحن ہے۔ البتہ مقتدی   امام کے پیچھے   تسمیہ نہیں پڑھے گا کیونکہ تسمیہ  قراءت  کے تابع ہے اور مقتدی پر قراءت ہی نہیں  لہذا مقتدی کیلئے تسمیہ بھی  مسنون ومستحب نہیں۔ہاں مسبوق (یعنی وہ مقتدی جس کی امام کے ساتھ ایک یا ایک سے زیادہ  رکعتیں رہ گئی ہوں)جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ نماز پوری کرے تو اب  ہر رکعت کے شروع میں سورہ فاتحہ سے پہلے اور فاتحہ کے بعد سورت کے شروع میں تسمیہ پڑھ لےکہ  امام کے سلام پھیرنے کے بعد  یہ مقتدی نہیں رہا    بلکہ منفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والاہوگیا۔

   نور الایضا ح  مع مراقی الفلاح میں ہے:’’(و)تسن (التسمیۃ أول کل رکعۃ) قبل الفاتحۃ لأنہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یفتتح صلاتہ ببسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ ترجمہ:ہر رکعت  کے شروع میں سورہ فاتحہ سے پہلے تسمیہ(بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنا سنت ہےکیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع فرمایا کرتے تھے۔(نور الایضاح مع مراقی الفلاح،کتاب الصلاۃ،فصل فی سننھا،صفحہ260،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   رد المحتار میں ہے:’’صرح فی الذخیرۃ والمجتبی بأنہ إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروءۃ سراً أو جھراً کان حسنا عند ابی حنفیۃ،ورجحہ المحقق ابن الھمام  وتلمیذہ الحلبی‘‘ترجمہ:ذخیرہ اور مجتبی میں صراحت کی گئی ہے کہ اگر کوئی  فاتحہ اور سورت کے درمیان تسمیہ پڑھے،چاہے سورت آہستہ پڑھی جانی ہو یا بلند آواز سےتو امام اعظم کے نزدیک یہ عمل  مستحسن ہے۔ محقِّق ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد علامہ حلبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے راجح قرار دیا ہے۔(ردالمحتار علی الدر المختار،جلد2،صفحہ 235،مطبوعہ: کوئٹہ)

   امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ سورہ فاتحہ کی ابتداء میں تو تسمیہ پڑھنا سنت ہے اور بعد کو اگر سورت یا شروع سورت کی آیتیں ملائے، تو اُن سے پہلے تسمیہ پڑھنا مستحب ہے،  پڑھے تو اچھا،  نہ پڑھے تو حرج نہیں‘‘۔(فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ191، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   بہار شریعت   میں ہے:’’نماز میں اعوذ و بسم اﷲ قراء ت کے تابع ہیں اور مقتدی پر قراء ت نہیں، لہٰذا تعوذ و تسمیہ بھی ان کے ليے مسنون نہیں، ہاں جس مقتدی کی کوئی رکعت جاتی رہی ہو تو جب وہ اپنی باقی رکعت پڑھے، اس وقت ان دونوں کو پڑھے‘‘۔(بہار شریعت،حصہ3،صفحہ523،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم