Namaz Mein Surah Fatiha Ke Baad Surat Milana Bhool Gaye To Kya Hukum Hai?

نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت ملانا بھول گئے ،تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Grw-714

تاریخ اجراء:24ربیع الاول1445ھ/11اکتوبر  2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ جن رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورت ملانا واجب ہے، اگر ان میں سورت ملانا بھول گئے اور رکوع میں چلے گئے، تو یاد آنے پر واپس  لوٹنے کا حکم ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ

   (1)یہ واپس لوٹنا کس درجے کا حکم ہے ؟ اگر یاد آنے کے باوجود واپس نہیں لوٹتے، تو کیا سجدہ سہو کافی ہو جائے گا؟

   (2) رکوع فرض اور سورت ملانا واجب ہے ، تو یہاں فرض سے واجب کی طرف لوٹنے کا کیوں حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)جن رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورت ملانا واجب ہے، ان میں سورت ملانا بھول گئے اور رکوع میں چلے گئے، تو اب حکمِ شرعی یہ ہے کہ نمازی کو اس رکعت کے سجدے میں جانے سے پہلے رکوع یا قومہ میں یاد آجائے،تو فوراً قیام کی طرف لوٹے، سورت ملائے اور دوبارہ رکوع کرے ، پھر آخر میں سجدہ سہو بھی کرے ۔ اور یہ قیام کی طرف لوٹنا واجب  ہے ۔ اگر یا دآنے کے باوجود قیام میں نہ لوٹے تو  جان بوجھ کر ترکِ واجب ہو گا ،جس سے نماز واجب الاعادہ ہو گی ، سجدہ سہو اس صورت میں کفایت نہیں کرے گا۔

   نیز یہ بھی یاد رہے کہ جب قیام میں واپس لوٹیں گے تو رکوع دوبارہ کرنا ہو گا ، اگر رکوع دوبارہ نہ کیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔

   بدائع الصنائع میں ہے:’’لوتذکر فی الرکوع او بعد ما رفع رأسہ منہ  أنہ ترک الفاتحۃ أو السورۃ یعود وینتقض رکوعہ‘‘ترجمہ: اگر نمازی کو رکوع میں یا رکوع سے اٹھنے کے بعد یاد آیا کہ اس نے فاتحہ یا سورت چھوڑدی ہے،تو حکم یہ ہے کہ وہ لوٹ آئے اور اس کا وہ رکوع ختم ہوجائے گا۔(بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ،فصل فی القنوت، ج02 ،ص234، دارالحدیث قاھرہ، بیروت)

   اس صورت میں سجدہ سہو کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:’’لو قرأ الفاتحۃ و آیتین فخر راکعاً ساھیاً ثم تذکر عاد و اتم ثلاث آیات و علیہ سجود السھو‘‘ترجمہ: نمازی اگر سورۃ الفاتحہ کے بعد دو(چھوٹی) آیات پڑھ کر بھولے سے رکوع میں چلا جائے ،پھر اسے یاد آئے تو واپس لوٹے اور تین آیات مکمل کرے اور  اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب الصلاۃ، ج01، ص126،مطبوعہ پشاور)

   قیام میں لوٹنے کے بعداگر رکوع دوبارہ نہ کیا ،تو نماز فاسد ہو جائے گی ،جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:’’(لو تذكرها)أي السورة(فی رکوعہ قرأها)أي بعد عوده إلى القيام(وأعاد الركوع)لأن ما يقع من القراءة في الصلاة يكون فرضاً فيرتفض الركوع ويلزمه إعادته لأن الترتيب بين القراءة والركوع فرض كما مر بيانه في الواجبات، حتى لو لم يعده تفسد صلاته"ترجمہ: نمازی کو اگر رکوع میں یاد آیا کہ وہ سورت ملانا بھول گیا ہے،تو اب وہ رکوع سے قیام کی طرف لوٹ کر قراءت کرے اور دوبارہ رکوع  کرے، کیونکہ نماز میں جو قراءت واقع ہوتی ہے، وہ فرض ہے، لہٰذا وہ پہلا رکوع باطل ہوگیا اور اس کا اعادہ کرنا نمازی پر لازم ہوگا، کیونکہ قراءت اور رکوع کے مابین ترتیب فرض ہے،جیسا کہ نماز کے واجبات میں اس کا بیان گزرا، یہاں تک کہ اگر نمازی نے دوبارہ رکوع نہ کیا، تو اس کی نماز ہی فاسد ہوگی۔(رد المحتار مع الدر المختار،کتاب الصلاۃ، ج02، ص311، مطبوعہ کوئٹہ، ملخصاً)

   بہارشریعت میں ہے :’’سورت ملانا بھول گیا ،رکوع میں یاد آیا ،تو کھڑا ہو جائے اورسورت ملائے پھر رکوع کرے اوراخیر میں سجدہ سہو کرے اگر دوبارہ رکوع نہ کرے گا ،تو نماز نہ ہوگی ۔‘‘ (بھارشریعت ، ج01،ح04،ص 545،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نمازی اگر قراءت بھول کررکوع میں چلا جائے تو سجدے سے پہلے یاد آجانے کی صورت میں لوٹنا واجب ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’اگر سجدے میں جانے تک بھولی ہوئی آیات یاد نہ آئیں، تو اب سجدہ سہو کافی ہے اور اگر سجدہ کو جانے سے پہلے رکوع میں خواہ قومہ بعد الرکوع میں یاد آجائیں، تو واجب ہے کہ قراءت پوری کرے اور رکوع کا پھر اعادہ کرے اگر قراءت پوری نہ کی تو اب پھر قصداً ترک واجب ہوگا اور نماز کا اعادہ کرنا پڑے گا اوراگر قراءت بعدالرکوع پوری کر لی اور رکوع دوبارہ نہ کیا،تو نماز ہی جاتی رہی کہ فرض ترک ہوا۔“(فتاویٰ رضویہ   ،ج 06، ص 330،رضا فاؤنڈیشن،لاھور، ملخصاً)

   مزید ایک دوسرے مقام پر امام اہل سنت علیہ الرحمۃ سے سوال ہواکہ’’نمازی کسی رکعت میں صرف الحمد پڑھے اور سہواً سورت نہ ملائے اور پھر سہو کا سجدہ کرے ،تو نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ ‘‘آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:’’جو سورت ملانا بھول گیا اگر اسے رکوع میں یاد آیا تو فوراً کھڑے ہوکر سورت پڑھے، پھر رکوع دوبارہ کرے ،پھر نماز تمام کرے اور اگر رکوع  كے بعد سجدہ میں یاد آیا ،تو صرف اخیر میں سجدہ سہو کرلے نماز ہوجائے گی اورپھیرنی نہ ہوگی۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج08،ص 196، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   (2) قرآن پاک کی تلاوت جب بھی  کی جائے گی (خواہ نماز میں ہو یا بیرونِ نماز) وہ حکمِ قرآنی ﴿فَاقْرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِترجمہ کنز الایمان:’’اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو۔‘‘کے تحت داخل ہو کر بطور فرض ہی ادا ہو گی ،کیونکہ یہ آیتِ مبارکہ مطلق ہے۔ لہذااگر کوئی نمازی سورۃ الفاتحہ کے بعد (جن رکعتوں میں سورت ملانا واجب ہے ان میں)سورت ملائے بغیر رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں یاد آ جائے تو وہ قیام میں واپس لوٹے گا اور سورت ملائے گاکہ اگرچہ سورت ملانا واجب تھا، مگرپوری قراءت ہی فرض کے درجے میں ہے ،لہٰذا یہاں فرض سے واجب کی طرف نہیں ،بلکہ فرض سے فرض کی طرف ہی لوٹنا پایا گیا۔

   امام اہل سنت، مجدد دین وملت،الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن جدالممتار میں فرماتے ہیں:’’أقول:۔۔۔ القرآن كلما قرئ لا يقع إلا فرضا لإطلاق ﴿فَاقْرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ(المزمل:20)، ولذا جاز العود من الركوع إلى قراءة السورة، فافهم‘‘ ترجمہ: میں کہتا ہوں:۔۔۔قرآن پاک جب بھی پڑھا جائے گا وہ فرض ہی ادا ہو گا کیونکہ سورہ مزمل کی آیت 20"اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو" مطلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رکوع سے سورت کی قراءت کی طرف لوٹنا جائز ہے ، پس اسے سمجھ لو۔ (جد الممتار، ج7، ص 267، مكتبة المدينة،كراتشي)

   امامِ اہل سنت علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:’’اگر سُورت بھول کررکوع میں چلا جائے ،پھر رکوع میں یاد آئے، تو حکم ہے کہ رکوع کو چھوڑے اور کھڑاہوکر سُورت پڑھے اور پھر رکوع کرے، حالانکہ ضم سورت صرف واجب تھا اور واجب کے لیے رفض فرض جائز نہیں ،جیسے قعدہ اولیٰ بُھول کر جو سیدھا کھڑا ہوجائے اب اُسے عود حلال نہیں کہ قعدہ واجب تھا اور قیام فرض ہے، مگر سورت جو پڑھے گا یہ بھی فرض واقع ہوگی تو فرض کے لیے رفض فرض ہوا، ولہٰذا اگر کھڑا ہو کر سُورت پڑھے اور اس خیال سے کہ رکوع تو پہلے کر چکا ہُوں دوبارہ رکوع نہ کرے، نماز باطل ہوجائیگی کہ فرض کے لیے جو فرض چھوڑا گیا وُہ جاتارہا تھا، اس پر فرض تھا کہ رکوع دوبارہ کرتا۔“ (فتاوی رضویہ،ج10،ص598، رضا ؤنڈیشن،لاھور)

   اس صورت میں جب نمازی رکوع سے قیام میں لوٹ کر قراءت مکمل کرے گا ،تو اسے دوبارہ رکوع کرنا ہو گا،یہ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قراءت فرض ہی کے درجے میں ادا ہو رہی ہے ، لہٰذا پہلے کیا ہوا رکوع کالعدم ہو اکہ قراءت و رکوع میں ترتیب لازم ہے۔جیسا کہ پہلی شق میں موجود در مختار کے جزئیے میں ہے:’’ لأن ما يقع من القراءة في الصلاة يكون فرضاً فيرتفض الركوع ويلزمه إعادته لأن الترتيب بين القراءة والركوع فرض كما مر بيانه في الواجبات‘‘ترجمہ اوپر ہو چکا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم