فتوی نمبر:WAT-3063
تاریخ اجراء: 06ربیع الاول1446 ھ/11ستمبر2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا نماز کی قراءت میں آیۃ الکرسی پڑھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں! پڑھ سکتے ہیں ۔ اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ:
سنن و نوافل اور واجب نماز کی تمام رکعتوں اور فرائض کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے بعد کم از کم تین چھوٹی آیات یا ایک یا دو ایسی بڑی آیات جو تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہوں ،پڑھنا واجب ہے۔علامہ شامی علیہ الرحمہ نے حروف کے اعتبار سےاس کی مقدار 30 حروف بیان کی اور اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نےحروف کے اعتبار سے اس کی مقدار 25 حروف بیان کی اور یہی مختار ہے، البتہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ نےعلامہ شامی علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق قراءت کرنے کو بہتر قرار دیا۔یعنی اگر کوئی شخص فاتحہ کے بعدایک یا دو آیات ایسی پڑھ لے جن کی مقدار 25 حروف کے برابر ہو تو اس کا واجب ادا ہوجائے گا۔البتہ بہتر یہ ہے کہ وہ ایسی آیات کاا نتخاب کرے جن میں 30حروف ہوں۔اور آیت الکرسی میں حروف 30 سے زائد ہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں سورۃ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی پڑھنے سےدونوں اقوال کے اعتبارسے قراءت کا واجب ادا ہوجائے گا۔
سورۂ فاتحہ کے بعد ایک بڑی آیت ، جو تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو ، پڑھنے سے واجب ادا ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے : ”و ضم اقصر سورۃ کالکوثر او ما قام مقامھا ، ھو ثلاث آیات قصار نحو’’ ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر واستکبر ‘‘و کذا لو کانت الآیۃ او الآیتان تعدل ثلاثا قصارا “ ترجمہ : ( نماز کے واجبات میں سے ایک واجب فاتحہ کے ساتھ )سب سے چھوٹی سورت کا ملانا ہے ، جیسا کہ سورۂ کوثر یا جو اس کے قائم مقام ہو اور وہ ( قائم مقام ) تین چھوٹی آیات ہیں ، جیسے ’’ ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر واستکبر ‘‘ اور اسی طرح اگر ایک آیت یا دو آیتیں ، جوتین چھوٹی آیتوں کے برابر ہوں۔ (در مختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص 458،دار الفکر،بیروت)
ایک بڑی آیت کی مقدار کے بارے میں علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ لم أر من قدر ادنیٰ ما یکفی بحد مقدر من الآیۃ الطویلۃ ۔۔۔۔ لکن التعلیل الاخیر ربما یفید اعتبار العدد فی الکلمات او الحروف ، ویفید قولھم : لو قرأ آیۃ تعدل اقصر سورۃ جاز و فی بعض العبارات تعدل ثلاثا قصارا : ای کقولہ تعالیٰ’’ ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر واستکبر ‘‘ و قدرھا من حیث الکلمات عشر و من حیث الحروف ثلاثون ، ملخصا ‘‘ ترجمہ : بڑی آیت کی مقدار کی حد میں جو ( نماز کے وجوب کے لیے) کافی ہے ، اس کی کسی نے ادنی مقدار مقرر کی ہو ، ایسا میں نے نہیں دیکھا ۔۔۔۔ لیکن آخری(بیان کردہ ) علت ، کلمات اور حروف میں تعدادکے معتبر ہونے کا فائدہ دے رہی ہے اور فقہاء کا یہ قول ’’ اگر کسی نے ایسی ایک آیت پڑھی ، جو سب سے چھوٹی سورت کے برابر ہو ، نماز جائز ہے“ اور بعض عبارات میں ہے کہ وہ بڑی آیت چھوٹی تین ( آیات) کے برابر ہویعنی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر واستکبر ﴾ اور اس کی مقدار کلمات کے اعتبار سے دس کلمے بنتے ہیں اور حروف کے اعتبار سے تعداد ، تیس حروف ہے ۔‘‘( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الصلاۃ،ج 1،ص 537،538،دار الفکر،بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن جد الممتار میں ان سےبھی چھوٹی آیات ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ اقول : بلیٰ ! فقولہ تعالیٰ : ’’ قم فانذر ، و ربک فکبر ، و ثیابک فطھر ‘‘ ثمانیۃ و عشرون حرفا مقروءا و خمسۃ و عشرون مکتوبا و قولہ تعالیٰ : ’’و الفجر ، و لیال عشر ، و الشفع و الوتر ‘‘ خمسۃ و عشرون حرفا و المکتوب ستۃ و عشرون ، فاذن ینبغی ادارۃ الحکم علیٰ خمسۃ و عشرین حرفا سواء اریدت المقروءات کما ھو الالیق او المکتوبات ‘‘ ترجمہ : میں کہتا ہوں : کیوں نہیں (علامہ شامی کی بیان کردہ آیات سے چھوٹی آیات بھی موجود ہیں) اللہ پاک کا فرمان:’’ قم فانذر ، و ربک فکبر ، و ثیابک فطھر ‘‘ پڑھے جانے والے اٹھائیس حروف ہیں اور لکھے جانے والے پچیس حروف ہیں اور اللہ پاک کا یہ فرمان :’’و الفجر ، و لیال عشر ، و الشفع و الوتر ‘‘ پچیس حروف ہیں اور لکھے جانے والے چھبیس حروف ہیں ، تو اب حکم کا مدار پچیس حروف پر ہونا ،مناسب ہے ، چاہے پڑھے جانے والے حروف مراد ہوں ، جیسا کہ یہی زیادہ لائق ہے ، یا لکھے جانے والے حروف ہوں ۔ ( جد الممتار ،کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الصلوۃ ، ج 3 ، ص 153 ، مکتبۃ المدینہ )
بہترعلامہ شامی علیہ الرحمہ کے تیس حروف والے قول کے مطابق ہی قراءت کرنا ہے ، جیسا کہ امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’ یوں سولہویں رکعت میں یہ دونوں آیتیں واقع ہوں گی:’’ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ، ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍ ‘‘ بہتر یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایک آیت اور ملائی جائے ، کہ ان میں صرف ستائیس حرف ہیں اور رد المحتار میں کم از کم تیس حرف درکار بتائے ۔ و ان کان فیہ کلام بیناہ علی ھامشہ مع ان المقروات فیھما ثلٰثون ( اگرچہ اس میں کلام ہے ۔،جیسے ہم نے حاشیہ رد المحتار میں تحریر کیا ہے ، علاوہ ازیں ان آیات میں مقروات تیس ہیں ۔ ) ‘‘ ( فتاوی رضویہ ، ج 6 ، ص 348،349،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں:” جبکہ صرف آیۃ الکرسی ہی پڑھی ہو اور جب کوئی لفظ چھوٹ گیا آیت پوری نہ ہوئی، مذہب راجح میں بے فساد معنی فسادِ نماز نہیں، اور واجب بھی ادا ہوجائے گا جبکہ باقی تین آیت کی قدر ہو۔(فتاوی رضویہ،ج 14،ص 375، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟