Namaz Mein Qiyam Ki Halat Mein Hath Bandhne Ka Hukum

نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کا حکم

مجیب:ابو حمزہ  محمد  حسان عطاری

مصدق:مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Hab-312

تاریخ اجراء:24 شعبان المعظم 5144ھ/06 مارچ 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس  مسئلے کے بارے میں کہ نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنا سنت ہے یا ہاتھ کھلے رکھنا سنت ہے؟ اس حوالے سے دلائل کے ساتھ رہنمائی فرمادیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز  میں قیام کی حالت میں سیدھے ہاتھ کو الٹے پر رکھنا یعنی ہاتھ باندھنا سنت مبارکہ ہے ۔ قیام کی حالت میں ہاتھ چھوڑے رکھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔

    قیام میں ہاتھ باندھے رکھنے پر کئی صحیح احادیث موجود ہیں، جن میں سے چند ہم یہاں ذکر کرتے ہیں ۔

   امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی صحیح کی کتاب الصلاۃ میں باب باندھا ہے : ’’باب وضع الیمنی علی الیسری‘‘ یعنی سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھنا،اس کے تحت   اپنی  سند سے سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں:’’كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ‘‘لوگوں کو حکم دیا  جاتا تھا  کہ مرد نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ  پر رکھیں   ۔

   حضرت ابو  حازم تابعی جو اس حدیث کو سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں  ارشاد فرماتے ہیں :’’لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلي اللہ تعالى عليه وآلہ وسلم‘‘ میں یہی جانتا ہوں کہ یہ بات انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی ۔

    یہ حدیث امام بخاری نے امام مالک  رحمہما اللہ تعالیکی سند سے روایت کی ہے ، امام مالک رحمہ اللہ تعالی  نے اپنی مؤطا اور امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے مسند میں  امام مالک کے طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔(مؤطا امام مالک، صفحہ 159، رقم 47، طبع  دار احیاء التراث )( مسند احمد، جلد 37، صفحہ 498، رقم 22849، طبع مؤسسۃ الرسالہ )( صحیح البخاری، جلد 1،صفحہ 148، رقم 740، طبع دار المنھاج، بیروت)

   امام نسائی رحمہ اللہ تعالی  اپنی سنن کے باب:’’ وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ ‘‘ نماز میں سیدھے ہاتھ کو الٹے پر رکھنا ،میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں،وہ فرماتے ہیں:’’رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا كان قائما في الصلاة قبض بيمينه على شماله ‘‘ترجمہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں قیام فرماتے تو  دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے تھے۔     (سنن النسائی، جلد 2، صفحہ 125، رقم 887، طبع دار المعرفہ، بیروت)

   امام احمد سیدنا غطیف بن الحارث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں،فرماتے ہیں :’’ما نسيت من الأشياء لم أنس أني  رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم واضعا يمينه على شماله في الصلاة  ‘‘ ترجمہ: میں کچھ اشیاء کبھی نہ بھولا،(اس میں سے)میں یہ نہیں بھولا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نما زمیں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ (مسند احمد، جلد 37 ،صفحہ 169، رقم 22497، طبع مؤسسۃ الرسالہ)

   حافظ نور الدين الہیثمی رحمہ اللہ تعالی معجم کبیر کے حوالے سے سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث نقل کرتے ہیں، وہ  فرماتے ہیں:’’ ثلاث من أخلاق النبوة: تعجيل الإفطار وتأخير السحور ووضع اليمين على الشمال في الصلاة‘‘ ترجمہ: تین چیزیں اخلاقِ نبوت میں سے ہیں: افطاری میں جلدی کرنا، سحری میں تاخیر کرنا اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا۔

   حافظ ہیثمی رحمہ اللہ تعالی اسے نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:’’رواه الطبراني في الكبير مرفوعا وموقوفا على أبي الدرداء، والموقوف صحيح، والمرفوع في رجاله من لم أجد من ترجمه ‘‘ اسے امام طبرانی نے کبیر میں مرفوع اور حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ پر موقوفاً دونوں روایت کیا ہے ، اور موقوف صحیح ہے، جبکہ مرفوع میں ایسے رجال ہیں ،جن کے حالات میں نے نہیں  پائے ۔(مجمع الزوائد، جلد 2، صفحہ 105، رقم 2611، طبع قاھرہ)

   مخفی نہیں کہ موقوف یہاں مرفوع کے حکم میں ہے ۔

   امام ابو داؤد، امام طبرانی اور امام ضیاء المقدسی رحمہم اللہ تعالی حضرت سيدنا عبد الله بن زبير رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں،وہ فرماتے ہیں:’’صف القدمين  ووضع اليد على اليد في السنة‘‘ ترجمہ: قدموں کو درست رکھنا اور سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر رکھنا سنن میں سے( ایک سنت) ہے۔ (سنن ابی داؤد، جلد 1، صفحہ 495، رقم 754، طبع دار القبلہ)( المعجم الكبير، جلد 13، صفحه 121، رقم 298 الاحاديث)( المختار، جلد 9، صفحه 301، رقم 257،طبع دار خضر ،بيروت)

   امام نووی  نے خلاصۃ الاحکام میں اس کی سند کو حسن اور حافظ ابن الملقن  رحمۃ اللہ تعالی علیہما  نے البدر المنیر میں جید قرار دیا ہے۔(خلاصۃ الاحکام، جلد 1، صفحہ 357، رقم 1091، طبع مؤسسۃ الرسالہ)( البدر المنیر،جلد 3 ،صفحہ 512، طبع دار الھجرہ )

   اگر اس پر  یہ اعتراض کیا جائے کہ خود عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ موجود ہے:’’کان ابن الزبیر إذا صلى يرسل يديه في الصلاة‘‘  ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما جب نماز پڑھتے، تو اپنے ہاتھ نماز میں چھوڑے رکھتے تھے ۔(المصنف لابن ابی شیبہ، جلد 3 ،صفحہ 325، رقم 3971، طبع دار القبلہ)

   جواباً یہ عرض ہے کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما کے فعل سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ آپ قیام کی حالت میں ہاتھوں کو چھوڑے رکھتے تھے ، اس میں اس بات کا احتمال موجود ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہما قومہ میں ہاتھو ں کو چھوڑے رکھتے ہوں ، جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ خود قیام میں ہاتھ کا باندھنا سنت فرما رہے ہیں، تو آپ کے فعل کو قومہ کی حالت پر ہی محمول کرنا ،مناسب ہے ۔

   ثانياً:مسند احمد میں یہ حدیث موجود ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما نے نماز سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے سیکھی تھی ۔(مسند احمد، جلد 1،صفحہ 236، رقم 73، طبع مؤسسۃ الرسالہ)

   اب ہم دیکھ لیتے ہیں کہ  حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا  قیام کی حالت میں طریقہ کار کیا تھا ۔امام بخاری کے استاذ حافظ کبیر مسدد  بن مسرہد رحمہما اللہ تعالی اپنی مسند میں ابو زیاد مولی آل دراج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’ما رأيت فنيست فإني لم أنس أن أبا بكر الصديق كان إذا قام في الصلاة قام هكذا وأخذ بكفه اليمنى على ذراعه اليسرى لازقا بالكوع‘‘  ترجمہ: جب سے میں نے دیکھا میں  نہیں بھولا ، میں نہیں بھولا کہ میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز میں اس طرح قیام کرتے ہوئے دیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے  بائیں ہاتھ کی   ہتھیلی کے کنارے کو پکڑتے ہوئے بائیں ہاتھ  پر دایا ں ہاتھ رکھا ۔(اتحاف الخيرة المھرۃ، جلد 2، صفحہ 156، رقم 1244  ،  طبع دار الوطن )( المطالب العالیہ، جلد 4، صفحہ 44، رقم 460،  دار العاصمہ)

   اس کی سند کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے الاصابہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔ (الاصابہ ،جلد 7، صفحہ 138، رقم الترجمہ 9974، طبع دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اس سے مصنف کی روایت کا محمل بالکل واضح ہوگیا کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما قومے کی حالت میں ہاتھ چھوڑے رکھتے تھے، نہ کے قیام کی حالت میں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم