مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-8569
تاریخ اجراء:02ربیع الثانی 1445ھ/ 18اکتوبر2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و
مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ بعض لوگوں سے سنا ہے کہ نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا گناہ ہے ، کیا ایسا ہی ہے اور کیا
اس طرح کرنے سے بینائی چلے جانے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نماز
میں اِدھر اُدھر دیکھناکیسا،کیا
اس سے بینائی چلے
جانے کا اندیشہ ہے ؟
نماز اہم ترین عبادت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ
ہے ، نماز میں بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مناجات کرتا ہے۔احادیث ِ
طیبہ کے مطابق نماز میں اللہ پاک کی رحمت بندے کی طرف
متوجہ رہتی ہے، جب تک بندہ اِدھر اُدھر
متوجہ نہ ہو جائے ، اس لیے چاہیے کہ نماز
میں اِدھر اُدھر دیکھنے کی بجائے ،خشوع
و خضوع سے نماز ادا کرے اور نماز میں قصداً چہرہ
پھیر کر دائیں بائیں دیکھنا ، خواہ پورا چہرہ پھیرا جائے یا تھوڑا ،
مکروہِ تحریمی و ناجائز ہے اور
چہرہ گھمائے بغیر صرف آنکھیں پھیر کر بلا ضرورت اِدھر اُدھر دیکھنا
مکروہِ تنزیہی اور ناپسندیدہ
عمل ہے اور اگر کبھی
کسی صحیح غرض و مقصد کے لیے ہو،تو
کوئی حرج نہیں اور جہاں تک بینائی
چلے جانے کا معاملہ ہے،تو یہ وعید
دائیں بائیں نظر
گھمانے کے متعلق نہیں ہے،بلکہ
نماز کے دوران آسمان کی طرف آنکھیں اٹھا کر دیکھنے والے کے متعلق ہے ،اورنماز
میں آسمان کی طرف نظر اٹھا
کر دیکھنا مکروہِ تحریمی
ہے ۔
نماز میں اللہ پاک
کی رحمت بندے کی طرف متوجہ
ہوتی ہے،چنانچہ سنن کبریٰ ، مسند دارمی
،صحیح ابنِ خزیمہ
وغیرہا کتبِ
احادیث میں ہے : واللفظ للاوّل:”قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لا يزال اللہ مقبلا على
العبد ما لم يلتفت، فإذا صرف وجهه، انصرف عنه “ ترجمہ : رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ( کی رحمت ) بندے
کی طرف اس وقت تک متوجہ رہتی
ہے ،جب تک بندہ
اِدھر اُدھر توجہ نہ کرے، جب نمازی اپنے چہرے کو پھیرتا ہے ،تو
الله تعالیٰ کی رحمت بھی
اس سے پھر جاتی ہے ۔( سنن الکبری ، التشدید فی الالتفات فی الصلاۃ ، جلد 2 ، صفحہ 37 ، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت )
صحیح بخاری
میں ہے :”قالت عائشة رضي اللہ عنها،سألت
النبي صلى اللہ عليه وسلم عن التفات الرجل في الصلاة، فقال: هو اختلاس يختلس الشيطان من صلاة أحدكم“ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آدمی کے
نماز میں دائیں بائیں متوجہ ہونے کے بارے میں پوچھا ، تو
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
: یہ ایسا عمل ہے ، جس کے
ذریعے شیطان بندے
کی نماز کا ثواب اُچک لیتا
ہے ۔ ( صحیح البخاری ، کتاب بدء الخلق ، جلد 1 ، صفحہ 580 ،مطبوعہ لاھور )
مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے :”والمعنى أن المصلي إذا التفت يمينا أو شمالا يظفر به
الشيطان في ذلك الوقت ويشغله عن العبادة فربما يسهو أو يغلط لعدم حضور قلبه
باشتغاله بغير المقصود ولما كان هذا الفعل غير مرضي عنه نسب إلى الشيطان وعن هذا
قالت العلماء بكراهة الالتفات في الصلاة ...أن الاجماع على أن الكراهية فيه
للتنزيه“ ترجمہ : معنیٰ
یہ ہے کہ نمازی جب دائیں
بائیں متوجہ ہوتا ہے،تو شیطان
اس وقت كامياب ہو جاتا ہے اور بندے کی توجہ کو عبادت سے پھیر دیتا ہے اور اس
سبب سے بندہ بعض اوقات بھول جاتا ہے یا دل کے غیر مقصود کام
میں مشغول ہونے کے سبب غلطی
کر جاتا ہے اور
جب یہ کام ناپسندیدہ
ہے ، تو اس کو شیطان کی طرف منسوب کر
دیا گیا ، اسی وجہ سے علمائے کرام فرماتے ہیں نماز میں دائیں
بائیں متوجہ ہونا ، مکروہ ہے اور اس بات پر علماکا
اجماع ہے کہ مکروہ سے مراد مکروہِ تنزیہی
ہے ۔( عمدۃ القاری ، کتاب الصلاۃ
، باب الالتفات فی الصلاۃ ، جلد 5 ، صفحہ 310 ،
مطبوعہ بیروت )
فتاوی عالمگیری میں ہے :’’ويكره أن يلتفت يمنة أو يسرة بأن يحول بعض وجهه عن القبلة
فأما أن ينظر بمؤق عينه ولا يحول وجهه فلا بأس به، كذا في فتاوى قاضي خان. ويكره
أن يرفع بصره إلى السماء “ ترجمہ
: اور نماز میں قبلہ سے کچھ چہرہ پھیر کر دائیں بائیں متوجہ ہونا ، مکروہ
ہے ، ہاں چہرہ گھمائے بغیر کَن اَنکھیوں سے دیکھنے میں حرج نہیں(مکروہ تحریمی نہیں) ، یونہی
فتاوی قاضی خان
میں ہے اور آسمان
کی طرف آنکھیں اٹھا
کر دیکھنا
مکروہ ( تحریمی
) ہے ۔( فتاویٰ
عالمگیری ، کتاب الصلاۃ ، الفصل الثانی ، جلد 1 ، صفحہ 106 ،
مطبوعہ کوئٹہ )
بہارِ شریعت میں ہے :”اِدھر اُدھر مونھ پھیر کر دیکھنا مکروہ تحریمی
ہے، کل چہرہ پِھر گیا ہو یا بعض اور اگر مونھ نہ پھیرے، صرف کنکھیوں سے اِدھر اُدھر بِلا حاجت دیکھے، تو کراہتِ تنزیہی ہے اور
نادراً کسی غرض صحیح سے ہو،تو اصلاً حرج نہیں ۔ نگاہ
آسمان کی طرف اٹھانا
بھی مکروہ تحریمی ہے۔“( بھارِ
شریعت ، مکروھات کا بیان ، جلد 1 ، صفحہ 626 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،
کراچی )
نماز میں آسمان
کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا ، سخت ممنوع ہے ، چنانچہ
صحیح بخاری
میں ہے:”قال النبي صلى اللہ عليه وسلم: ما بال أقوام يرفعون أبصارهم
إلى السماء في صلاتهم، فاشتد قوله في ذلك، حتى قال: لينتهن عن ذلك أو لتخطفن
أبصارهم“ ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
: ان لوگوں کا کیا حال ہے جو نماز میں آسمان
کی طرف نظریں اٹھا
کر دیکھتے ہیں ، نبی
پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس معاملے
میں سختی فرمائی ، یہاں تک کہ فرمایا
: وہ لوگ اس سے باز آ جائیں
یا ان کی آنکھیں اُچک
لی جائیں
گی ۔( صحیح البخاری ، کتاب الاذان ، باب رفع البصر الی السماء ،
جلد 1 ، صفحہ 173
،مطبوعہ لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟