Dorane Namaz Ek Surat Ya Ayat Se Dosri Taraf Muntaqil Ho Jane Se Namaz Ka Hukum?

دوران نماز ایک سورت یا آیت سے دوسری طرف منتقل ہوجانے سے نماز کا حکم؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin 6247

تاریخ اجراء:25ذوالقعدۃ الحرام1440ھ29جولائی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ  دورانِ نماز قراءت میں سورۃ العصرشروع کی اور جب﴿الاالذین آمنوا وعملوا الصلحت﴾پر پہنچا،توسورۃ التین کا یہ حصہ ﴿فلھم اجرغیر ممنون﴾تلاوت کردیا،تو کیا اس صورت میں نماز ہو جائے گی؟اور سجدۂسہولازم ہو گا یا نہیں؟

سائل:عدیل احمد(گلیال کھوڑاں،پنڈی گھیب)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورت مسئولہ میں نماز درست ہوجائے گی، کیونکہ ایک  آیت یا اس کے کسی حصے کو چھوڑ کر دوسری آیت یا دوسری آیت کے کسی حصے کو شروع کر دینے سے نماز فاسد ہو نے یا  نہ ہونے  کی تین صورتیں ہیں:

    (۱)پہلی آیت پر وقف کیا، پھر دوسری آیت پڑھی،اس صورت میں نماز ہو جائے گی، چاہے ملا کر پڑھنے سے معنیٰ فاسد ہوں یا نہ ہوں۔

    (۲) اگر دونوں آیتوں میں وصل کیایعنی بغیر وقف کے ملا کرپڑھا اور معنیٰ فاسد نہ ہوئے، تو نماز ہو جائے گی۔

    (۳) اگر وصل کیا اورمعنیٰ فاسد ہو گئے، تو نماز فاسد ہو جائے گی۔

    لہذاپوچھی گئی صورت میں﴿الا الذین آمنوا وعملوا الصلحت﴾اور﴿فلھم اجرغیر ممنون﴾پڑھنےکے درمیان چاہے وقف کیا ہویا نہ کیا ہو،بہرصورت معنیٰ فاسد نہ ہونے کی وجہ سے نماز درست ہو جائے گی اور سجدۂ سہو بھی لازم نہیں،کیونکہ واجب قراءت کی مقدارپوری ہوچکی ہے۔

    فتاوی قاضی خان میں ہے:’’ان ذکر آیۃ مکان آیۃ ان وقف علی الاولی وقفاً تاماً وابتدا بالثانیۃ لا تفسد صلاتہ کما لو قرا﴿والتین والزیتون﴾ ووقف ثم ابتدا ﴿لقد خلقنا الانسان فی کبد﴾ لا تفسد صلاتہ و کذا لو قرا﴿الاالذین آمنوا وعملوا الصلحت﴾ ووقف ثم قرا﴿اولئک ھم شر البریۃ﴾ وان لم یقف وقرا موصولاً ان لم تتغیر الاولی بالثانیۃ کما لو قرا﴿الاالذین آمنوا وعملوا الصالحات فلھم جزاء الحسنی﴾ او قرا﴿وجوہ یومئذ علیھا غبرۃ اولئک ھم الکافرون حقا﴾ لا تفسد صلاتہ وان تغیر المعنی بان قرا﴿ان الابرار لفی جحیم وان الفجار لفی نعیم﴾ او قرا﴿الا الذین آمنوا وعملوا الصلحت اولئک ھم شر البریۃ﴾ او قرا﴿وجوہ یومئذ علیھا غبرۃ اولئک ھم المومنون حقا﴾ تفسد صلاتہ لانہ اخبر بخلاف ما اخبر اللہ تعالی بہ‘‘ترجمہ :اگر ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ پڑھ دیا، اگر پہلی پر وقف تام کیاپھر دوسری آیت پڑھی،تو نماز فاسد نہیں ہو گی، (چاہےمعنیٰ فاسدہوں یا نہ ہوں) جیسے اس نے ﴿والتین والزیتون﴾ پڑھ کر وقف کیا، پھر ﴿لقد خلقنا الانسان فی کبد﴾کی ابتدا کی، تو نما زفاسد نہ ہو گی، اسی طرح اگر اس نے ﴿ الاالذین آمنوا وعملوا الصلحت﴾ پڑھ کر وقف کیا، پھر ﴿اولئک ھم شر البریۃ﴾ پڑھا، تو نماز درست ہو گئی اور اگر وقف نہ کیا، بلکہ ملا کر  پڑھا، تو اگر دوسری آیت کے ملنے سے معنیٰ متغیر نہ ہوئے، نماز فاسد نہ ہو گی جیسےکسی نے﴿الاالذین آمنوا وعملوا الصلحت فلھم جزاء الحسنی﴾پڑھا یا ﴿وجوہ یومئذ علیھا غبرۃ اولئک ھم الکافرون حقا﴾پڑھا، نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر معنیٰ بگڑ گئے جیسے کسی نے﴿ان الابرار لفی جحیم وان الفجار لفی نعیم﴾ یا ﴿الاالذین آمنوا وعملوا الصلحت اولئک ھم شر البریۃ﴾ یا ﴿وجوہ یومئذ علیھا غبرۃ اولئک ھم المومنون حقا﴾ پڑھا ،تو نماز ٹوٹ جائے گی، کیونکہ اس نے اللہ عزوجل کی دی ہوئی خبر کے خلاف خبر دی۔‘‘

(فتاوی قاضی خان، ج1،ص 139، قدیمی کتب خانہ، کراچی )

    امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے کسی سورت کے درمیان سے کچھ چھوڑنے کے متعلق سوال ہوا ،تو آپ  علیہ الرحمۃ نے فرمایا :’’اگر ان کے ترک سے معنیٰ نہ بگڑے،توصحیح ہو گی، ورنہ نہیں، پھر اگر یہ سورۃ ،سورۂ فاتحہ ہے، تو اس میں مطلقاً کسی لفظ کے ترک سے سجدہ سہو واجب ہو گا، جبکہ سہواً ہو،ورنہ اعادہ ۔اور،اور  کسی سورت سے اگر لفظ یا الفاظ متروک ہوئے اور معنیٰ فاسد نہ ہوئے اور تین آیت کی قدر پڑھ لیا گیا، تو اس چھوٹ جانے میں کچھ حرج نہیں ۔‘‘

( فتاوی رضویہ، ج 6، ص 355، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم