Namaz Mein Ameen Ahista Awaaz Mein Ho Ya Buland Awaz Mein?

نماز میں آمین آہستہ آواز میں ہو یا بلند آواز میں؟

مجیب:مولانا شاکرصاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Sar-6744

تاریخ اجراء:04محرم الحرام1441ھ/04ستمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازمیں آہستہ آوازسے آمین کہناچاہیے یابآوازِبلند؟بعض افرادکاکہناہے بلند آوازسے آمین کہناچاہیے نہ کہ آہستہ آوازسے۔برائے مہربانی جوحق ہے وہ واضح فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نماز خواہ جہری ہویاسری اورنمازی امام ہویامقتدی یامنفردان سب کے لیے آہستہ آوازسے آمین کہناسنت ہے،جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”اذا فرغ من الفاتحة قال آمین و السنة فیہ الاخفاء والمنفرد والامام سواءوکذاالماموم ا ذا سمع“ترجمہ :اور جب سورہ فاتحہ سے فارغ ہو تو آمین کہے اور آمین کہنے میں سنت یہ ہے کہ آہستہ کہے اور امام ، منفردکاایک ہی حکم ہے اورایسے ہی مقتدی کے لئے بھی آہستہ آوازسے کہناسنت ہے جب وہ سنے۔

(فتاوی عالمگیری،کتاب الصلوة،ج01،ص74 ،مطبوعہ کوئٹہ )

    شیخ الاسلام امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:”آمین سب کوآہستہ کہناچاہیے امام ہوخواہ مقتدی خواہ اکیلا ۔ یہی سنت ہے۔“

(فتاوی رضویہ،ج06،ص332،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    اورنمازمیں آہستہ آوازسے آمین کہنادلائل نقلیہ یعنی آیاتِ قرآنیہ،احادیث نبویہ،اقوالِ صحابہ ،آثارِ تابعین رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین اوردلائل عقلیہ سے ثابت ہے۔جن میں سے چندایک درج ذیل ہیں۔

    چنانچہ اللہ تبارک وتعالی قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے:﴿ اُدْعُوۡا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً﴾ترجمہ کنزالایمان:اپنے رب سےدعامانگوگڑ گڑاتے اورآہستہ۔

(القرآن،سورة الاعراف،آیت نمبر55)

    مذکورہ آیت سے معلوم ہواکہ دعا آہستہ کرنی چاہیےاورآمین بھی دعاہے،لہذایہ بھی آہستہ کہنی چاہیے،جیساکہ علامہ سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ” فانہ دعاء ، فان معناہ علی ما قال الحسن اللھم أجب ، وفی قولہ تعالی ﴿قَدْ اُجِیۡبَتۡ دَّعْوَتُکُمَا﴾ ما یدل علیہ ، فان موسی علیہ السلام کان یدعو وھارون کان یؤمن،والخفاء فی الدعاء أولی قال اللہ تعالی﴿ اُدْعُوۡا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً﴾ وقال علیہ الصلاة والسلام : خیر الدعاء الخفی وخیر الرزق ما یکفی “ترجمہ: بیشک آمین دعاہے، کیونکہ امام حسن کے فرمان کے مطابق آمین کہنا اس معنی میں ہے کہ اے ہمارے رب ! قبول فرما اور اللہ عزوجل کا فرمان(تم دونوں کی دعا قبول ہوئی)اس کی تائید کرتا ہے، کیونکہ اس میں موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے تھے اور ہارون علیہ السلام اس دعا پر آمین کہتے تھے  اور دعا میں اِخفاء جہر سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”اپنے رب کو عاجزی سے اور آہستہ پکارو“اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”بہتر دعا وہ ہے جو آہستہ ہو اور بہتر رزق وہ ہے جو کفایت کرے۔“

(المبسوط،کتاب الصلوٰة، باب مکروھات الصلوٰة، ج01،ص130،مطبوعہ کوئٹہ)

    صحیح بخاری،صحیح مسلم،جامع ترمذی،سنن ابوداؤد،سنن نسائی،سنن ابن ماجہ،سنن کبری،مسندامام احمداورموطا امام مالک میں ہے اورالفاظ صحیح بخاری کے ہیں:”عن ابی ھریرة رضی اللہ تعالی عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال اذاامن الامام فامنوافانہ من وافق تامینہ تامین الملئکةغفرلہ ماتقدم من ذنبہ“ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب امام آمین کہے توتم بھی آمین کہوکیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگی اس کے سابقہ گناہوں کوبخش دیاجائے گا۔

(صحیح البخاری،ج01،ص108،مطبوعہ کراچی ۔ الصحیح لمسلم ، باب التسمیع و التحمید و التامین ، ج 01 ، ص 176 ، مطبوعہ کراچی ۔ جامع ترمذی،باب ماجاء فی فضل التامین ، ج 01 ، ص 162 ، مطبوعہ لاھور ۔ سنن ابوداؤد ،کتاب الصلاة، باب التامین وراء الامام ، ج 01 ، ص 143 ،مطبوعہ لاھور ۔ سنن نسائی ،کتاب الصلاة ، ج 01 ، ص 147 ، مطبوعہ لاھور ۔ سنن ابن ماجہ ، صفحہ 61 ، مطبوعہ کراچی  ۔ سنن الکبری ، ج 02 ، ص 56 ، مطبوعہ مکہ ۔  مسند احمد بن حنبل ، مسند ابی ھریرۃ ، ج 02 ، ص 238 ، مطبوعہ قاھرہ ۔ موطا امام مالک ، باب ماجاء فی التامین ، صفحہ 69 ، مطبوعہ کراچی )

    صحیح بخاری،سنن ابوداؤد،سنن نسائی،اورموطا امام مالک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:” ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال: اذاقال الامام ﴿ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ ﴾ فقولواآمین فانہ من وافق قولہ الملئکة غفرلہ ماتقدم من ذنبہ“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب امام﴿ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ ﴾ کہے توتم”آمین“ کہو ، کیونکہ جس کاآمین کہنافرشتوں کی آمین کہنے کے موافق ہوگا ، اس کے گناہوں کوبخش دیاجائے گا۔

(صحیح البخاری ، ج 01 ، ص 108 ، مطبوعہ کراچی ۔ سنن ابوداؤد ، باب التامین ، ج 01 ، ص 143 ، مطبوعہ لاھور۔ سنن نسائی ، کتاب الصلاة ، ج 01 ، ص 147 ، مطبوعہ لاھور۔ موطا امام مالک،باب ماجاء فی التامین ، صفحہ70 ،مطبوعہ کراچی)

    مذکورہ بالااحادیث سے معلوم ہواکہ گناہوں کی معافی اس نمازی کے لیے ہے ، جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہواورفرشتے آہستہ آوازسے آمین کہتے ہیں،لہٰذاہماری آمین کی آوازبھی آہستہ ہی ہونی چاہیے تاکہ فرشتوں سے موافقت کی وجہ سے گناہوں کی معافی ہوجائے۔

    امام احمد،امام ابوداؤدطیالسی،امام ابویعلی موصلی،امام طبرانی،امام دارقطنی،اورامام حاکم حضرت وائل بن حجررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں:”عن وائل ابن حجر انہ صلی مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلما بلغ غیر المغضوب علیھم ولاالضالین قال آمین واخفی بھا صوتہ“ترجمہ:حضرت وائل بن حجررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( غیر المغضوب علیھم ولاالضالین)پرپہنچے تو آمین کہا اور آہستہ آواز سے آمین کہا ۔

(مسنداحمد،ج04،ص316،مکتبہ اسلامیہ ،بیروت۔مسندابوداؤدطیالسی،رقم الحدیث1024،ج01،ص253،مطبوعہ دارالمعرفہ ۔ بیروت۔طبرانی کبیر،رقم الحدیث38،ج22،ص09،مطبوعہ بیروت۔سنن الکبری للبیھقی،ج02،ص57،مطبوعہ مکة المکرمہ ۔مستدرک للحاکم ،رقم الحدیث2913،ج02،ص253،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت بحوالہ جاء الحق)

    جامع ترمذی میں حضرت وائل بن حجررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:”عن علقمہ بن وائل عن ابیہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قر أ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین فقال امین وخفض بھا صوتہ“ترجمہ: علقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے﴿ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین﴾پڑھا اور آہستہ آمین کہی ۔

(جامع ترمذی،کتاب الصلوٰة،باب ماجاء فی التامین،ج01،ص162،مطبوعہ لاھور)

    عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:” عن أبی وائل قال لم یکن عمر وعلی رضی اللہ تعالی عنھما یجھران ببسم اللہ الرحمن الرحیم ولا بآمین “ترجمہ:حضرت ابو وائل فرماتے ہیں ہے کہ حضرت عمر فاروق،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما بسم اللہ الرحمن الرحیم اور آمین جہرسے نہ کہتے تھے ۔                                         

(عمدة القاری ،کتاب الاذان،ج06،ص75،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

    امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حمادرضی اللہ تعالی عنہ سے انہوں نے امام ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ:”قال اربع یخفیھن الامام التعوذوبسم اللہ وسبحانک اللھم و بحمدک وآمین“ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:امام چارچیزیں آہستہ کہے:(1) اعوذباللہ (2)بسم اللہ (3)سبحانک اللھم و بحمدک (4)آمین۔

( نصب الرایہ ، کتاب الصلوٰۃ ، باب صفۃ الصلوٰۃ ، جلد 01 ، صفحہ 325 ، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت )

    آہستہ آوازسے آمین کہنے پرعقلی دلیل بیان کرتے ہوئے مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”عقل بھی چاہتی ہے کہ آمین آہستہ کہی جاوے ، کیونکہ آمین قرآن کی آیت یاکلمہ قرآن نہیں ، اسی لئے نہ جبریل امین اسے لائے،نہ قرآن کریم میں لکھی گئی،بلکہ دعااورذکراللہ ہے توجیسے کہ ثناء التحیات درودابراہیمی ۔دعاماثورہ وغیرہ آہستہ پڑھی جاتی ہیں۔ایسے ہی آمین بھی آہستہ ہونی چاہیے ۔ یہ کیاکہ تمام ذکرآہستہ ہوئے آمین پرتمام لوگ چیخ پڑے ۔ یہ چیخناقرآن کے بھی خلاف ہے، احادیث صحیحہ کے بھی ، صحابہ کرام کے عمل کے بھی اورعقل سلیم کے بھی ۔ رب تعالی عمل کی توفیق دے۔“

(جاء الحق،صفحہ521 ،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)                                                                                                                                                                   

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم