Namaz Me Muqaddas Maqam Ka Khayal Aana

نمازی کو دورانِ قراءت کسی مقدس مقام کی سوچ آجائے، تو نماز کا  کیا حکم ہے؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12327

تاریخ اجراء: 02محرم الحرام 1444 ھ/01اگست 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ اگر نمازی کو دورانِ قراءت کسی مقدس مقام مثلاً: مکہ، مدینہ کی سوچ آجائے ،جس بنا پر وہ چند سیکنڈ کے لیے خاموش ہوجائے، جبکہ اس نے ابھی واجب کی مقدار قراءت مکمل نہ کی ہو، تو کیا اس صورت میں اس نمازی پر سجدہ سہو لازم ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں تفکر اور سوچ اگر سہواً یعنی بلا قصد تھی  اور کم از کم  ایک رکن یعنی تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار تک خاموش رہا، تو سجدہ سہو سے تلافی ہوگی اور اگر قصداً تھی تو نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے ۔

نماز میں سوچنے سے کس صورت میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے؟ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”الاصل فی التفکر انہ ان منعہ عن اداء رکن کقراءۃ آیۃ اوثلاث اورکوع اوسجود

او عن اداء واجب کالقعود یلزمہ السھو لاستلزام ذلک ترک الواجب  وھوالاتیان بالرکن

 او الواجب فی محلہ وان لم یمنعہ عن شیء من  ذلک بان کان یودی الارکان ویتفکرلایلزمہ السھو“یعنی سوچنے میں اصل  یہ ہے کہ اگر یہ رکن کی ادائیگی سے مانع ہو،جیسے ایک یاتین  آیتوں  کی قراءت ، یارکوع ،سجود سے روکے یاپھر واجب کی ادائیگی سے مانع ہو، جیسے قعود توسجدہ سہولازم ہوگا،اس لیے کہ یہ چیزترک واجب کو لازم کرتی ہے اوروہ رکن یاواجب کواس کے محل میں اداکرنے کاواجب ہے ،ہاں اگر سوچناان دونوں سے مانع نہ ہواس طرح کہ وہ نمازی ارکان سوچتے ہوئے اداکرے توسجدہ سہولازم نہیں ہوگا ۔ (ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ، ج02،ص677،مطبوعہ کوئٹہ)

سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”سکوت اتنی دیر کیا کہ تین بار سبحان اللہ کہہ لیتا، تو یہ سکوت اگر بر بنائے تفکر تھا کہ سوچتا رہا کہ کیا پڑھوں ،تو سجدہ سہو واجب ہے ، اگر نہ کیا، تو اعادہ نماز کا واجب ہےاور اگر وہ سکوت عمداً بلا وجہ تھا، جب بھی اعادہ واجب۔ (فتاوی رضویہ ، ج08، ص192، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

مزید ایک دوسرے مقام پر فتاویٰ رضویہ ہی میں مذکور ہے:”(صورتِ مسئولہ میں)بوجہ سہو اتنی دیر تک چپکا کچھ سوچتا رہا ہو، جس قدر دیر میں ایک رکن ادا ہوسکے، تو اس سکوت  کے با عث سجد ہ سہو  لازم آئے گا، کما فی التنویر، ملخصاً ۔ (فتاوی رضویہ ، ج06، ص327، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

صدر الشریعہ علیہ الرحمۃسے سوال ہوا کہ”زید نے فرض کی نیت کی اور دیر تک خاموش رہا تھوڑی دیر بعد اس کو یاد آیا، تو الحمد شریف زور سے شروع کیا ،تو ایسی حالت میں سجدہ سہو ہوگا یا نہیں ؟“ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”اگر زید ثناء وغیرہ کے بعد سوچتا رہا کہ کیا پڑھوں اور اتنا وقفہ اس تفکر میں ہوا کہ ایک رکن ادا کرلیتا یعنی تین بار سبحان اللہ کہنے کے برابر وقفہ کیا، تو سجدہ سہو واجب ہے۔ رد المحتار میں ہے:’’ثم الاصل فی التفکر انہ ان منعہ عن اداء رکن ۔۔۔۔الخ۔   (فتاویٰ امجدیہ،ج01،ص282، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم