مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری
فتوی نمبر:Nor-12696
تاریخ اجراء:03رجب المرجب1444ھ/26جنوری2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازی کو چھینک
آئے اور وہ یہ جانتے ہوئے کہ نماز میں ہے الحمد للہ کہہ دے، تو اس
صورت میں نماز کا کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسئلہ کی
تفصیل یہ ہے کہ اگر نماز میں چھینک آجائے تو نمازی
کو چاہیے کہ وہ نماز سے فارغ ہونے
کے بعد حمد کہے۔ البتہ اگر کسی نمازی نے نماز ہی
میں حمد کہہ لی تب بھی فقہائے کرام کی تصریحات کے
مطابق اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی کہ چھینک آنے پر حمد
کہنا عرفاً جواب نہیں لھذا مفسد نماز ہونے کا سبب نہیں پایا
گیا۔
چنانچہ فتاوی عالمگیری،
فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”والنظم للاول“ لو قال العاطس لا
تفسد صلاته وينبغی ان يقول فی نفسه والاحسن هو السكوت كذا
فی الخلاصة “یعنی نمازی
کو چھینک آئی اور اس نےالحمد للہ کہا تو نماز نہیں ٹوٹے
گی اورنمازی کو چھینک آنے پرالحمدللہ دل میں کہنا
چاہئےاورخاموشی اختیار کرنا اچھا ہے جیسا کہ خلاصہ میں ہے
۔ (الفتاوی
الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، ج01،ص98،مطبوعہ پشاور)
درر غررمیں ہے:”لو قال العاطس او السامع الحمد للہ لا تفسد لانه
ليس جوابا عرفا “یعنی اگر چھینکنے والے نےیا سامع نےالحمد للہ کہا تو
نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ یہ عرفاً جواب
نہیں۔(درر الحکام شرح غرر
الاحکام،ج01،ص102،مطبوعہ کراچی)
بہارِ شریعت میں ہے:”نماز میں
چھینک آئے توسکوت کرےاور الحمدللہ کہہ لیا تو بھی نماز
میں حرج نہیں اور اگر اس وقت حمد نہ کی تو فارغ ہوکر کہے۔“(بہار شریعت،ج01، ص605،
مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟