Namaz Ki Qirat Mein Jama Mutakallim Ki Zameer Ka Alif Na Parha Tu

 

نماز کے دوران قراءت کرتے ہوئے جمع متکلم کی ضمیر  نَا کا الف نہیں پڑھا ، تو نماز کا حکم ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD -9177

تاریخ اجراء: 18   جمادی الاولٰی  1446ھ 21 نومبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ اگر کسی  شخص نے نماز میں  قراءت کے  دوران سورہ اعراف کی آیت   ﴿      وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى﴾ تلاوت کرتے   ہوئے ﴿     وَ وٰعَدْنَا ﴾ کی ’’نا“ ضمیر  کو بغیر الف کے﴿ وَ وٰعَدْنَ﴾پڑھ دیا،تو اس کی نمازکا  کیا حکم ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کسی نے آیت ﴿   وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى﴾تلاوت کرتے   ہوئے  ﴿ وَ وٰعَدْنَا کی ’’نا“ ضمیر  کو بغیر الف کے﴿ وَ وٰعَدْنَ ﴾ پڑھ دیا،تو اس  کی نماز  درست ادا ہوگئی،کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگرکسی نے  ضمیر "نا" میں الف نہیں پڑھا،تو اگرچہ بظاہر الف نہ پڑھنے سے یہ مؤنث کا صیغہ محسوس ہورہا ہے، لیکن نماز فاسد نہیں ہوگی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب ’’ الف “کےعوض فتحہ،’’یاء “کے عوض کسرہ اور’’واؤ “کے عوض ضمہ پراکتفاء کرتے ہیں ،تو اس تفصیل کے مطابق  ﴿ وَ وٰعَدْنَا کی ’’نا“ ضمیر  کو بغیر ’’الف “کے﴿  وَ وٰعَدْنَ  پڑھ  دینے سے نماز میں کوئی حرج واقع نہیں ہوگا کہ یہاں پر بھی’’ الف“ کے عوض فتحہ پر اکتفاء کیا گیا ہے۔

   کلمہ کے کسی حرف کو حذف کرنے سے معنی میں تبدیلی نہ آئے، تو نماز فاسد نہیں ہوگی ،جیساکہ علامہ ابو المَعَالی  بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتےہیں:’’ المحذوف إذا كان حرفا زائدا لا يتغير المعنى الأصلي في الكلمة، فلا يوجب الفساد“ ترجمہ :جس لفظ   کو حذف کیا گیا ،جب وہ ایسا زائد حرف ہو کہ جس سے اس کلمہ  کے اصلی معنی میں کوئی تبدیلی نہ آئے ،تو  یہ  حذف نماز کے فاسد ہونے کا سبب نہیں بنے گا ۔ (المحیط البرھانی ،جلد 1،صفحہ 327 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت )

   کلمہ کے کسی حرف  کو حذف کرنے  کے متعلق اہل عرب کے ہاں رائج طریقہ کے متعلق العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ  میں ہے :’’قرأ وتعال جدك بغير ياء لا تفسد ۔۔۔ لأن العرب تكتفي بالفتحة عن الألف اكتفاءهم بالكسرة عن الياء ولو قرأ أعذ بالله لا تفسد أيضا لاكتفائهم بالضمة عن الواو قنية من باب حذف الحرف والزيادة ترجمہ: کسی  نے ﴿تَعَالٰی جَدُّ رَبِّکَمیں’’ تعالی“ کو بغیر  ’’یا “کے پڑھا، تو نماز فاسد  نہیں ہوگی، کیونکہ  اہل عرب’’ الف“ کے عوض  فتحہ   ،’’یا “کے عوض کسرہ اور’’ واؤ “کے عوض ضمہ پر اکتفا کرتے ہیں    ،اسی طرح اگر کسی نے ’’ أعذ بالله ‘‘(اعوذ کی واو کو حذف کرکے ) پڑھا   تو نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ یہاں واو کے عوض ضمہ  پر اکتفاء کیا گیا ہے ۔یہ مسئلہ  (کتاب)’’قنیہ “کے باب ’’حذف الحرف والزیادۃ   “سے لیا گیا ہے ۔(العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ، جلد1، صفحہ6، مطبوعہ  دار الفکر ،بیروت)

   ماضی جمع متکلم کے صیغے میں’’ الف“  کا نہ پڑھنامطلقاً مفسد نماز نہیں ، چنانچہ فتاوی رضویہ میں ایسے امام کے متعلق  سوال  ہوا کہ جو  ماضی جمع متکلم کے صیغے ایسے ادا کرتا ہے کہ سامعین کو جمع مونث غائب کا شبہ ہوتا ہے،تو کیا اس کے پیچھے  نمازدرست ہے یا نہیں ؟اس کے جواب میں امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یوں ہی ضمیر "نا" میں الف مسموع نہ ہونا مفسد نہیں۔ ’’لما صرح بہ القنیۃ۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد 6،صفحہ 248  ، 250 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم