مجیب: ابو حمزہ محمد
حسان عطاری
مصدق: مفتی
محمدقاسم عطا ری
فتوی نمبر: HAB-0014
تاریخ اجراء: 12 جمادی الاخری1444ھ/05
جنوری 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں
کہ زید کا کہنا ہے کہ نماز کی نیت زبان سے کرنا، جائز نہیں
ہے ، کیونکہ فقہ حنفی کی معتبر کتب میں اس کو بدعت لکھا گیا
ہے ۔ کیا یہ بات درست ہے ؟ برائے کرم تفصیل کے ساتھ جواب
عنایت فرمادیں تاکہ دوسرے افراد کو گمراہی سے بچایا جاسکے
۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نیت دل کے ارادے کو
کہتے ہیں ، دل میں نیت ہوتے ہوئے زبان سے بھی نیت کے الفاظ بولنا کہ اس سے دل کی
نیت پر مدد حاصل ہو اور وہ پختہ ہوجائے جائز بلکہ مستحب ہے ، کیونکہ دل
میں عموما ًخیالات کی بھرمار ہوتی ہے ، نیت کو حاضر رکھنا مشکل کام ہوتا ہے،
زبان سے نیت کے کلمات کا تلفظ کرنے سے دل کی نیت بھی حاضر
رہتی ہے ۔
زید کا یہ کہنا
غلط ہے کہ زبان سے نماز کی
نیت کرنا،جائز نہیں ہے، زید نے مسئلہ صحیح سمجھا نہیں ہے۔فقہ حنفی کی
معتبر کتب میں اس بات کی صراحت ہے کہ زبان سے نیت کرنا مستحسن
ہے، اور مشائخ نے اسے پسند کیا ہے، کیونکہ اس سے دل کی
نیت کو تقویت حاصل ہوتی
ہے ، بعض کتب میں اس کو سنت
بھی کہا گیا ہے،لیکن
اس سے مراد مشائخ کی سنت
یعنی ان کا طریقہ کار ہے یا مطلق اچھا طریقہ مراد
ہے ۔
جہاں تک رہا اس کو بدعت کہنا، تو کتبِ احناف میں اس بات کی صراحت ہے
کہ یہ بدعتِ حسنہ ہے ، بدعت اس لحاظ
سے کہ یہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ
وسلم ، صحابۂ کرام علیہم
الرضوان ، اور تابعین سے ثابت نہیں ہے ، اور حسنہ اس لحاظ سے کہ
شریعت مطہرہ کے اصول کے یہ خلاف نہیں ،کیونکہ اس سے
کسی سنت کا تبدل وتغیر نہیں ہورہا ،بلکہ دل میں جو
نیت تھی اس کے لیے یہ معاون کام ہے۔
زبان سے نیت کا تلفظ دل کے ارادے کو پختہ
کرتا ہے جس کے سبب یہ مستحسن ومستحب
ہے، اس حوالے سے مبسوط
سرخسی ، ہدایہ، الارشاد فی الفقہ الحنفی للبابر تی،
شرح مجمع البحرین لابن الساعا تی، مختارات النوازل لصاحب
الھدایہ اورتبیین الحقائق میں ہے،واللفظ للثالث: ’’وأما
التلفظ بها فليس بشرط ولكن يحسن لاجتماع عزيمته‘‘ ترجمہ :زبان سے نیت کا تلفظ کرنا شرط
نہیں ، لیکن دل کے ارادے کے پختہ ہوجانے کے سبب مستحسن ہے ۔ (المبسوط، ج 1 ،ص 11، طبع دار المعرفة ،الهداية،
ج 1، ص 220، تبيين الحقائق، ج 1، ص 262، مطبوعان دار الكتب العلميه ، الارشاد
فی الفقہ الحنفی، ص 271، طبع دار السمان ،ترکی ، شرح مجمع
البحرین لابن الساعاتی ،ج 1، ص 526، مختارات النوازل، ص 91، طبع
مکتبۃ الرشاد، استنبول)
محیط برہانی اور منیۃ
المصلی میں ہے ،والنظم للمحيط :’’ هل يستحب أن يتكلم بلسانه؟ اختلف المشايخ فيه،
بعضهم قالوا: لا، لأن اللہ تعالى مطلع على الضمائر، وبعضهم قالوا: يستحب وهو المختار،
وإليه أشار محمد رحمه اللہ في أول كتاب المناسك‘‘ ترجمہ: کیا زبان سے نیت کرنا مستحب
ہے ؟تو اس بارے میں مشائخ کا اختلاف ہے ، بعض نے استحباب کی نفی
کی ہے، کیونکہ اللہ تعالی باطن کو جانتا ہے ، اور بعض مشائخ نے
فرمایا کہ یہ مستحب ہے اور یہی مختار قول ہے، اور
اسی کی طرف امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے کتاب المناسک کی
ابتداء میں اشارہ فرمایا ہے ۔(المحيط البرهاني، ج 1، ص 28، طبع ادارة التراث
الاسلامي، لبنان ، منية المصلي، ص 169، طبع دار القلم، دمشق)
خلاصۃ الفتاوی ،فتاوی
قاضی خان اور ملتقی الابحر میں ہے : والنظم للخانیۃ:’’ أما أصلها أن يقصد بقلبه فإن قصد بقلبه وذكر
بلسانه كان أفضل‘‘نیت
کی اصل یہ ہے کہ دل سے ارادہ کیا جائے،
اگر کسی نے اپنے دل میں ارادہ کیا اور زبان سے تلفظ بھی
کیا، تو یہ افضل ہے ۔ (خلاصة الفتاوي ،ج 1، ص
79، فتاوي قاضي خان ،ج 1، ص 78، ملتقى
الابحر مع مجمع الأنهر، ج 1، ص 127، طبعات کوئٹہ)
بعض کتب میں زبان
سے نیت کے الفاظ کہنے کو سنت کہا گیا ہے ، اس کی توضیح
شارحین نے یہ کی ہے کہ سنت سے مراد بعض مشائخ کی سنت ہے
یا سنت سے مراد اچھا طریقۂ کار ہے ۔ چنانچہ محیط رضوی، جوہرۃ النیرہ
، الجواہر من الفقہ الحنفی للخوارزمی اور تحفۃ الملوک میں ہے: والنظم للمحیط :’’وهي إرادة الصلاة ،والإرادة عمل القلب فالنية بالقلب فرض وذكرها
باللسان سنة‘‘ ترجمہ: نیت نماز
کا ارادہ کرنا ہے اور ارادہ دل کا عمل ہے ،تو دل سے نیت فرض ہے اور اس کو
زبان سے ذکر کرنا سنت ہے ۔ (المحيط الرضوي، ج 1، ص 219، مطبوعه دار الكتب
العلميہ، الجوھرۃ النیرۃ، ج 1، ص 48، طبع مصر الجواهر من فقه الحنفي للخوارزمي، ص 199، طبع دار
السمان، تحفۃ الملوک ،ص 82، طبع دار
البشائر الاسلاميه، بيروت)
امداد الفتاح میں ہے :’’فمن قال إن التلفظ بالنية سنة لم يرد به كونه سنة النبي بل سنة بعض
المشائخ اختاروه لاختلاف الزمان وكثرة الشواغل على القلوب فيما بعد زمن الصحابة
والتابعين‘‘ جس نے یہ کہا ہے
کہ نیت کا تلفظ کرنا سنت ہے، تو انہوں نے اس سے نبی پاک صلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنت مراد نہیں
لی ، بلکہ بعض مشائخ کی سنت
مراد لی ہے ،جنہوں نے صحابہ وتابعین کے بعد زمانے کے مختلف ہونے اور دل پر بکثرت مشاغل
کے وارد ہونے کی وجہ سے اس کو اختیار کیا ہے۔(امداد الفتاح شرح نور الايضاح ،ص 237 ،طبع كوئٹہ)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:’’ (وقيل سنة) يعني أحبه السلف أو سنه علماؤنا، إذ لم
ينقل عن المصطفى ولا الصحابة ولا التابعين‘‘ترجمہ: کہا گیا ہے کہ زبان سے نیت
کے الفاظ کہنا سنت ہے ،اس کامعنی یہ ہے کہ اس کو اسلاف نے پسند
کیا ہے یا یہ ہمارے علماء کی سنت ہے (سنت اصطلاحی
اس لیے نہیں ) کہ یہ مصطفی کریم صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم سے منقول نہیں اور نہ ہی
صحابہ کرام سے اور نہ ہی تابعین علیہم الرضوان سے ۔
علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی سنت
کی توجیہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :’’وسنة باعتبار أنه طريقة حسنة لهم لا طريقة
للنبي صلى اللہ عليه وسلم ‘‘ ترجمہ: اور سنت اس اعتبار سےکہ یہ
اسلاف کا اچھا طریقہ ہے، نہ یہ کہ نبی پاک صلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے ۔(رد المحتارمع الدرالمختار، ج 2، ص 114، طبع كوئٹہ)
امام ابن ہمام رحمہ اللہ تعالی نے اس تلفظ
کو بدعت فرمایا ہے،لیکن ان کے کلام سے واضح ہے کہ اس کو بدعت قرار دینا اس کے نبی پاک صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم ، صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور تابعین
رحمہم اللہ تعالی سے منقول نہ ہونے کے سبب ہے ،اور یہ اس کے
قبیح ہونے کی دلیل نہیں ، بلکہ یہ دل کی
نیت کے لیے معاون ہے ،اسی لیے ان کے بعد کے ائمہ نے ان کے
قول بدعت کو بدعتِ حسنہ پر محمول کیا ہے ۔
فتح القدیر کے الفاظ ہیں:’’ قال بعض الحفاظ: لم يثبت عن رسول اللہ صلى اللہ تعالی عليه وآلہ وسلم بطريق صحيح ولا ضعيف أنه كان يقول عند الافتتاح
أصلي كذا، ولا عن أحد من الصحابة والتابعين، بل المنقول أنه كان صلى اللہ تعالی عليه وآلہ وسلم إذا قام إلى الصلاة كبر وهذه بدعة ‘‘ ترجمہ: بعض حفاظ نے فرمایا : رسول اللہ
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے کسی صحیح
اور نہ ہی ضعیف سند سے ثابت
ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ابتدائے
نماز میں یوں فرماتے ہوں کہ میں فلاں نماز پڑھتا ہوں ، اور نہ
یہ صحابہ وتابعین علیہم الرضوان سے ثابت ہے ، بلکہ منقول
یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ
وسلم جب نماز کا ارادہ فرماتے تو تکبیر کہتے ، (یہ تلفظ کرنا) بدعت ہے
۔(فتح القدير، ج 1، ص 266،
طبع دار الفكر، بيروت)
در مختار میں ہے :’’ قيل بدعة ‘‘ کہا گیا ہے کہ نیت کا تلفظ کرنا
بدعت ہے۔
طحطاوی
علی الدر المختار میں اس کے تحت ہے : ’’قائله ابن الهمام ولكنها حسنة ‘‘ترجمہ اس کو بدعت کہنے کے قائل امام ابن ہمام
ہیں ، لیکن یہ بدعت حسنہ ہے۔(حاشیۃ الطحطاوي على الدر المختار، ج
2 ،ص 90، طبع دار الكتب العلميه)
علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی در کے قول بدعت کے تحت فرماتے ہیں:’’نقله في الفتح، وقال في الحلبة: ولعل الأشبه أنه
بدعة حسنة عند قصد جمع العزيمة لأن الإنسان قد يغلب عليه تفرق خاطره، وقد استفاض
ظهور العمل به في كثير من الأعصار في عامة الأمصار فلا جرم أنه ذهب في المبسوط
والهداية والكافي إلى أنه إن فعله ليجمع عزيمة قلبه فحسن، فيندفع ما قيل إنه يكره ‘‘ترجمہ اس کا بدعت ہونا
فتح القدیر میں نقل کیا ہے ، حلبہ میں فرمایا:
زیادہ لائق یہ ہے کہ ارادے کی پختگی کے حصول کے لیے
یہ بدعت حسنہ ہے ، اس لیے کہ انسان کے دل پر مختلف خیالات کا
غلبہ رہتا ہے ، پھر اکثر شہروں میں ایک طویل عرصہ سے اس پر عمل
معروف ہے ، لا جرم مبسوط ہدایہ اور کافی میں یہ مذہب
اختیار کیا ہے کہ اگر وہ زبان سے نیت کرتا ہے تاکہ دل کا ارادہ
پختہ ہو، تو یہ اچھا ہے ،لہذا جو اس کو مکروہ کہا گیا وہ (شبہ) دور
ہوگیا۔(در
مختار مع رد المحتار، ج2، ص 114،113 طبع كوئٹہ)
غنیۃ ذوی الاحکام میں ہے: ’’( قوله والتلفظ بها مستحب ) يعني طريق حسن أحبه المشائخ
لا إنه من السنة ، لأنه لم يثبت عن رسول اللہ صلى اللہ تعالی عليه
وآلہ وسلم من طريق صحيح ولا ضعيف ولا عن أحد من الصحابة والتابعين ولا عن أحد
عن الأئمة الأربعة، بل المنقول أنه صلى اللہ
تعالی عليه وآلہ وسلم كان إذا قام إلى الصلاة كبر ، فهذه بدعة حسنة عند
قصد جمع العزيمة ‘‘ ترجمہ:زبان سے نیت
کا تلفظ کرنا مستحب ہے، یعنی اچھا طریقہ ہے، جسے مشائخ نے پسند
کیا ہے ، یہ نہیں کہ یہ سنت ہے ، کیونکہ نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے سند
صحیح اور نہ ہی ضعیف سےیہ
بات ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ ، تابعین اور ائمہ اربعہ میں سے
کسی سے ثابت ہے، بلکہ منقول یہ ہے کہ نبی کریم صلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم جب نماز کا ارادہ فرماتے، تو
تکبیر کہتے، لہذا ارادے کی پختگی
کے لیے زبان سے بھی نیت کرنا بدعت حسنہ ہے۔(الدرر والغرر، ج 1، ص 62، طبع دار احیاء
الکتب العربیہ، بیروت)
حضرت
علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ’’ وهذه
بدعة حسنة استحسنها المشائخ للتقوية أو لدفع الوسوسة‘‘ یعنی یہ تلفظ بدعت حسنہ ہے ،جسے مشائخ نے
تقویت کے حصول یا وسوسے کو دور کرنے کے لیے پسند کیا ہے۔(فتح
باب العناية، ج 1، ص 214، طبع دار احیاء التراث، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟