Namaz Ke Ruku Aur Sajda Se Sajda Tilawat Ada Hone Ki Soorat

نماز کے رکوع اور سجدے سے سجدہ تلاوت ادا ہونے کی صورت

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12906

تاریخ اجراء: 24ذو الحجۃ الحرام1444 ھ/13جولائی 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے  دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے نماز میں سورۃ العلق پڑھی جس کی آخری آیت میں آیتِ سجدہ ہے۔   زید سجدہ تلاوت کرنے کے بجائےفوراً  رکوع میں چلا گیا اور رکوع کے بعد سجدہ کرکے  آگے باقاعدہ نماز جاری رکھی، پھر نماز کے آخر میں سجدہ سہو بھی نہیں کیا۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا زید کی وہ نماز درست ادا ہوئی  ہے ؟ یا پھر اسے دوبارہ سے وہ نماز ادا کرنا ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز میں آیتِ سجدہ پڑھی ہو، تو فوراً ( یعنی تین آیات سے زیادہ پڑھنے سے پہلے پہلے) سجدہ تلاوت کرنا واجباتِ نماز میں سے ہے۔ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق نمازی اگر آیتِ سجدہ پڑھنے کے فوراً   بعد رکوع و سجود کرلے ،تو یہاں دو صورتیں بنتی ہیں: 

   پہلی صورت تو یہ ہے کہ نماز کے رکوع سے ہی سجدہ تلاوت ادا ہوجائے، بشرطیکہ نمازی آیتِ سجدہ پڑھنے کے فوراً بعد رکوع کرے اور اُسی رکوع میں سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی بھی نیت کرلے، اس صورت میں راجح قول کے مطابق نماز کے رکوع سے ہی سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا۔

   دوسری  صورت یہ ہے کہ نمازی  آیتِ سجدہ پڑھنے کے فوراً بعد رکوع کرکے نماز کا سجدہ ادا کرلے، تو اس صورت میں بالاجماع بغیر سجدہ تلاوت کی نیت کے نماز کے سجدے سے ہی سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا ۔

    پوچھی گئی صورت میں زید نے سورۃ العلق میں موجود آیتِ سجدہ پڑھنے کے فوراً بعد رکوع کرکے نماز کو آگے جاری رکھا، تو اس صورت میں بالفرض زید نے رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت نہیں کی تھی، تب بھی نماز کے سجدے سے ہی زید کا سجدہ تلاوت ادا ہوگیا، لہٰذا زید کی وہ نماز درست ادا ہوئی۔ البتہ یہ مسئلہ ذہن نشین رہے کہ نماز میں سجدہ سہو اس وقت واجب ہوتا ہے، جب نمازی بھولے سے کسی واجب کو ترک کردے، جبکہ    صورتِ مسئولہ میں زید نے کوئی واجب ترک نہیں کیا کہ اُس پر سجدہ سہو واجب ہوتا۔

   آیتِ سجدہ کے فوراً بعد رکوع اور سجدہ کرلینے سے اُسی رکوع اور سجدے سے سجدہ تلاوت ادا ہونے سے متعلق تنویر الابصار مع درمختارمیں ہے: ”(و)تؤدى (بركوع صلاة) إذا كان الركوع (على الفور من قراءة آية) أو آيتين، وكذا الثلاث على الظاهر كما في البحر۔ (إن نواه) أي كون الركوع (لسجود) التلاوة على الراجح (و) تؤدى (بسجودها كذلك) أي على الفور (وإن لم ينو) بالاجماع “ ترجمہ: راجح قول کے مطابق نماز کے رکوع سے بھی سجدہ تلاوت ادا ہوجاتا ہے، بشرطیکہ  نمازی نے رکوع سے سجدہ تلاوت کی نیت کی ہو اور آیتِ سجدہ پڑھنے کے فوراً بعد رکوع کیا ہو یعنی کہ ایک یا دو آیتیں پڑھنے کے بعد رکوع کیا ہو، اسی طرح ظاہر الروایہ کے مطابق تین آیات تک پڑھی ہوں جب بھی یہ فی الفور سجدہ کرنے میں شمار ہوگا، جیسا کہ بحر میں مذکور ہے ۔ یونہی بالاجماع  آیتِ سجدہ پڑھنے کے فوراً بعد  نماز کا سجدہ  کرنے سے بھی سجدہ تلاوت ادا ہوجاتا ہے، اگر چہ  نمازی نے اس سجدے میں سجدہ تلاوت کی نیت نہ کی ہو۔

    (قوله بالإجماع) کے تحت ردالمحتار میں ہے: ” كذا قال في البدائع ترجمہ: ” اسی طرح صاحبِ بدائع نے ذکر کیا ہے۔(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ،  ج02، ص707-706، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوٰی  عالمگیری، مجمع الانہر، نہر الفائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے، والنظم للاول:’’أجمعوا على أن سجدة التلاوة تتأدى بسجدة الصلاة وإن لم ينو للتلاوة ، كذا في الخلاصة یعنی فقہائے کرام کا اس  پر اجماع ہے کہ سجدہ تلاوت نماز کے سجدے سے ادا ہوجاتا ہے  ،اگر چہ سجدہ تلاوت کی نیت نہ کی ہو، ایسا ہی خلاصۃ الفتاوی میں ہے۔(فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الصلاۃ،  ج 01، ص 134،  مطبوعہ بیروت)

   آیتِ سجدہ کے فوراً بعد رکوع اور سجدہ نہ کیا، تو اب رکوع اور سجدے سے سجدہ تلاوت ادا نہ ہونے سے متعلق فتح القدیر میں ہے:”قد صرحوا بأنه إذا لم يسجد ولم يركع حتى طالت القراءة ثم ركع ونوى السجدة لم يجز ، وكذا إذا نواها في السجدة الصلبية ؛ لأنها صارت دينا عليه ، والدين يقضى بما له لا بما عليه یعنی فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ نمازی نے آیتِ سجدہ پڑھنے کے بعد سجدہ اور رکوع  نہ کیا ، طویل قراءت کی پھر اس نے رکوع کیا اور سجدہ تلاوت کی نیت کرلی ،تو اس کا سجدہ تلاوت ادا نہ ہوگا، یونہی اگر نماز کے سجدے میں سجدہ تلاوت کی نیت کی، تو  سجدہ تلاوت ادا نہ ہوگا، کیونکہ  سجدہ تلاوت اس پر دین ہوچکا ہے اور دین اس  چیز سے ادا کیا  جاتا ہے ،جو  دین کی ادائیگی کے لیے مقرر ہو ، نہ اس چیز سے جو پہلے سے ذمہ پر لازم ہو ۔(فتح القدیر، کتاب الصلاۃ،  ج 02، ص 19-18، دار الفکر، بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:” سجدۂ تلاوت نماز میں فوراً کرنا واجب ہے تاخیر کرے گا گنہگار ہو گا ۔۔۔ تاخیر سے مراد تین آیت سے زیادہ پڑھ لینا ہے ، کم میں تاخیر نہیں۔۔۔اگر آیت پڑھنے کے بعد فوراً نماز کا سجدہ کر لیا یعنی آیت سجدہ کے بعد تین آیت سے زیادہ نہ پڑھا اور رکوع کر کے سجدہ کیا، تو اگرچہ سجدۂ تلاوت کی نیت نہ ہو ، ادا ہو جائے گا۔ نماز کا سجدۂ تلاوت ، سجدہ سے بھی ادا ہو جاتا ہے اور رکوع سے بھی، مگر رکوع سے جب ادا ہو گا کہ فوراً  کرے ۔ فوراً نہ کیا تو سجدہ کرنا ضروری ہے اور جس رکوع سے سجدۂ تلاوت ادا کیا خواہ وہ رکوع رکوعِ نماز ہو یا اس کے علاوہ۔ اگر رکوعِ نماز ہے، تو اس میں ادائے سجدہ کی نیت کر لے ۔(ملتقطاً بھارِ شریعت، ج 01، ص734-733، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم