Namaz Ke Qiyam Mein Jhuk Kar Khara Hona Kaisa?

نماز کے قیام میں جھک کر کھڑا ہونا کیسا ؟

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1704

تاریخ اجراء: 13ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/02جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شخص نماز کے قیام میں احتراماًتھوڑا سا جھک کر کھڑا ہو ،تو یہ کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قیام کی  کم سے کم حد یہ ہے کہ   اس طرح کھڑا    ہو کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنے تک  نہ پہنچیں  اور مکمل قیام یہ ہے کہ سیدھا کھڑا ہو،لہذا قیام  میں اس قدر جھک کر کھڑا ہونا کہ ہاتھ بڑھانے کی صورت میں گھٹنوں تک پہنچ جائیں،ہرگز  درست نہیں کہ اس سے فرض قیام  ہی   ادا  نہیں ہوگا ، البتہ اس  سے کم  جھکنا  جس میں ہاتھ گھٹنوں تک نہ پہنچ رہے ہوں،یہ قیام صحیح ہے، لیکن افضل وبہتر  یہی ہے کہ قیام میں مکمل طور پر سیدھا کھڑا ہوا جائے ،کیونکہ یہ طریقہ نماز میں خشوع           پیدا کرتا ہے۔

   مراقی الفلاح میں ہے:’’وحد القيام أن يكون بحيث إذا مد يديه لا ينال ركبتيه‘‘ ترجمہ:اورقیام کی حد   یہ ہے کہ اس طرح کھڑا           ہو کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں تک نہ پہنچیں۔

   حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے’’قولہ:وحد القيام،أي حد أدناه وتمامه بالإنتصاب کالقنا وهو بهذه الصفة مما يورث الخشوع في الصلاة كما ذكره العارف با للہ تعالى سيدي أحمد زروق في نصيحته‘‘ترجمہ:اور ان کا قول  کہ قیام کی حد یہ ہے ،اس سے مرادیہ ہے کہ اُس کی کم سے کم حدیہ ہے ،اور مکمل قیام سیدھا کھڑا ہونا ہے جیسے کھجور کی خشک لکڑی، اور اس طریقے سے قیام  کرنا ،نماز میں خشوع پیدا  کرنے والے امور میں سے ہے۔جیسا کہ اس بات کو عارف باللہ سیدی احمد زروق نے اپنے نصائح میں  ذکر کیا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،صفحہ224-225،دار الکتب العلمیہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم