Namaz Ke Awwal Waqt Mein Muqeem Aur Aakhri Waqt Mein Musafir Ho To Namaz Kis Tarah Parhe?

نماز کے اول وقت میں مقیم  اور آخری وقت میں مسافر ہو تو نماز کس طرح پڑھے ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12823

تاریخ اجراء:20شوال المکرم1444ھ/11مئی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید اپنے گھر سے ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد نمازِ ظہر ادا کیے بغیر ہی شرعی سفر کے لیے نکلا، ابھی زید مطلوبہ شہر پہنچنے کے قریب تھا کہ رستے میں ظہر کے آخری وقت میں زید نے وہ نمازِ ظہر قصر ادا کی۔

   آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا زید کی وہ نمازِ ظہر درست ادا ہوئی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں زید کی وہ نمازِ ظہر درست ادا ہوئی ہے۔

   تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ  جب کسی منزل کے لئے شرعی مسافت یعنی تقریبا بانوے کلو میٹر کا سفر ہو تو مسافر اپنے  شہر کی شرعی  حدود(شہر کی آبادی اور اس شہر سے متصل فنائے شہر) سے نکلنےکے بعد، اور دوسرے شہر کی شرعی حدود میں داخل ہونے سے پہلےتک، راستے بھر قصر نماز ادا کرے گا۔  اگر اس دوسرے شہر میں اس کا قیام پندرہ دن سے کم ہو تو وہاں بھی وہ قصر نماز ہی ادا کرے گا۔ یاد رہے کہ  نماز میں قصر کرنا مسافر پر واجب ہے یعنی مسافر چار رکعت والے فرض مثلاً ظہر ، عصر اور عشاء کو دورکعت  پڑھے گا کہ اس کے حق میں دو رکعتیں ہی پوری نماز ہے۔

   نیز فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر کوئی شخص مقیم تھا پھر نماز کی ادائیگی سے پہلے ہی وہ مسافر ہوگیا تو اب وہ قصر نماز ادا کرے گا یونہی اگر مسافر نماز کی ادائیگی سے پہلے مقیم ہوجائے  تو اب وہ پوری نماز ادا کرے گا۔ اس پوری تفصیل سے واضح ہوا کہ پوچھی گئی صورت میں زید پر ظہر کی نماز میں قصر واجب تھا لہذا بیان کردہ صورت میں زید کی وہ نمازِ ظہر درست ادا ہوئی ہے۔

   مسافر پر نماز میں قصر واجب ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِترجمہ کنزالایمان:” اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو۔“(پارہ5 سورۃ النساء،آیت 101)

   ہدایہ اولین میں ہے:”فرض المسافر فی الرباعیۃ رکعتان لایزید علیھمایعنی چار رکعتی فرض نمازیں مسافر کے حق میں دو رکعتیں ہیں ، ان پر زیادتی نہ کرے ۔(ھدایہ،کتاب الصلاۃ ،جلد   اوّلین ،ص 174،مطبوعہ لاھور )

   بہارِ شریعت میں ہے:مسافر پر واجب ہے کہ نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑھے ، اس کے حق میں دو ہی رکعتیں پوری نماز ہے ۔“ (بہارِ شریعت،ج 01  ، ص 743، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   مسافر شہر سے نکلتے ہی نماز میں قصر کرے گا۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے : قال محمدرحمه اللہ تعالى:يقصر حين يخرج من مصره ويخلف دور المصر، كذا في المحيط یعنی امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ  آدمی جب اپنے شہر سے نکل جائے اور اس کےشہر کے گھر پیچھے رہ جائیں، تو اس وقت وہ قصر شروع کرے گا ، ایسا ہی محیط میں ہے ۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 139، مطبوعہ پشاور)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” جب وطن سے اُس شہر کے قصد پرچلا اور وطن کی آبادی سے باہر نکل گیا اس وقت سے قصر واجب ہوگیا۔  راستے بھر تو قصر کرے گا ہی اور اگر اُس شہر میں پہنچ کر اس بار پندرہ روز یا زیادہ قیام کا ارادہ نہیں، بلکہ پندرہ دن سے کم میں واپس آنے یا وہاں سےاور کہیں جانے کا قصد ہے،تووہاں جب تک ٹھہرے گا اس قیام میں بھی قصر ہی کرے گا اور اگر وہاں اقامت کا ارادہ ہے ،تو صرف راستہ بھر قصر کرے، جب اس شہر کی آبادی میں داخل ہوگا قصر جاتا رہے گا۔ وﷲ تعالیٰ اعلم “(فتاوٰی رضویہ، ج08، ص258،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   فتاوٰی بحر العلوم میں ہے:”پوری مسافتِ سفر کا مسلسل ارادہ ہو تو مسافر آدمی جیسے ہی آبادی سے باہر جائے گا قصر کرے گا۔“ (فتاوٰی  بحر العلوم ، ج 01، ص 460، شبیر برادرز لاہور)

   مقیم نے نماز نہیں پڑھی تھی کہ مسافر ہوگیا تو اب نماز میں قصر کرے۔ جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:” کسی نے نماز نہ پڑھی تھی اور وقت اتنا باقی رہ گیا ہے کہ اللہ اکبر کہہ لے اب مسافر ہوگیا تو قصر کرےاور مسافر تھا اسوقت اقامت کی نیت کی تو چار پڑھے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 749 ، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم